1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شارلی ایبدو حملے کے بعد انٹرنیٹ پر سازشی نظریات کی بھرمار

عاطف توقیر19 جنوری 2015

شاری ایبدو پر حملے کی پہلی خبر آنے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ پر تو جیسے سازشی نظریات کی بھرمار ہو گئی۔ کوئی کہتا دکھائی دیا کہ یہ خفیہ کارروائی ہے اور کسی کی نظر میں یہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھی۔

https://p.dw.com/p/1EMiE
تصویر: Reuters/I. Fassbender

سات جنوری کو پیرس میں ہفت روزہ شارلی ایبدو پر حملے میں ممتاز کارٹونسٹس سمیت 12 افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتے ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر افواہوں کا انبار دکھائی دیا۔ اس سے قبل گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکا پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھی افواہیں گھڑنے والوں نے ایسی خبروں کو اسی طرح عام کیا تھا۔

انٹرنیٹ پر سامنے آنے والے ان سازشی نظریات میں سے سب سے اہم کاؤشی برادران کی گاڑی کے ریرویو مِرر یا عقب میں دیکھنے کے لیے استعمال ہونے والے آئینے کی رنگت کی تبدیلی سے متعلق باتیں تھیں۔ اس میں شارلی ایبدو پر حملے کے وقت یہ آئنیہ سیاہ جب کہ بعد میں جب پولیس نے ایک سڑک سے یہ کار برآمد کی تو اس کا رنگ سفید تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ آئینے ممکنہ طور پر کیمیائی مادے کروم سے تیار کیا گیا تھا، جو روشنی کے مطابق رنگ تبدیل کرتاہے۔

Dammartin-en-Goele Polizei Suche Charlie Hebdo Attentäter 09.01.2015
اس واقعے کے بعد فرانس میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی ہےتصویر: picture-alliance/Xinhua/Chen Xiaowei

اس کے علاوہ کاؤشی برداران میں سے ایک کا گاڑی میں شناختی کارڈ بھول جانا اور کوشر مارکیٹ حملے میں ملوث امیدی کولی بالی کا ٹیلی فون ریسیور کو ٹھیک سے اپنی جگہ پر واپس نہ رکھنا، جیسے موضوعات پر سازشی نظریات پھیلانے والے باتیں کرتے رہے۔ حتیٰ کے اس حملے کے بعد گیارہ مارچ کو پیرس میں ہونے والی ایک جہتی مارچ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے بعد یہ دعوے بھی ہوئے کہ یہ ریلی اسرائیلی سرحدوں کی آئینہ دار تھی۔

سازشی نظریات کے امور کے ماہر اور فرانس کے وسط مشرقی حصے میں قائم سائنسس پو لیوں یونیورسٹی کے پروفیسر امینویل تیِب کے مطابق، ان واقعات کی عوام کو پیش کی گئی سرکاری تشریحات انتہائی عام تھیں۔ ’’جب لوگوں کو کسی واقعے کی کمزور یا افسوس ناک تشریحات ملیں تو وہ اسے یا تو مسترد کر دیتے ہیں یا وہ زیادہ دل چسپ یا پریشان کن جائزوں کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔‘‘

مبصرین کے مطابق نوجوان، جن کی معلومات کا زیادہ تر انحصار انٹرنیٹ پر ہوتا ہے، انٹرنیٹ پر دستیاب تمام طرح کی معلومات پر اعتبار کرنے لگتے ہیں۔

ایک فرانسیسی فٹ بال کلب کے صدر محمد تریا کے مطابق، ’’میں اپنے کلب میں 13 تا 15 برس کے چالیس بچوں سے ملا اور ان سے یہ سن کر حیران رہ گیا کہ ان واقعات سے متعلق انہوں نے معلومات اخبارات سے حاصل نہیں کیں بلکہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے حاصل کیں تھیں۔ ان کے لیے معلومات کی رسائی کا یہ واحد راستہ تھا اور انہوں نے جو کچھ پڑھا اسے سچ سمجھ کر اس پر یقین کر لیا۔‘‘

ماہرین کے مطابق تیس برس قبل بچے 90 فیصد معلومات اپنے والدین یا اساتذہ سے حاصل کرتے تھے مگر اب معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہمیں سوشل نیٹ ورکس کے بارے میں بچوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔