1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینیٹ الیکشن: ’ڈنکے کی چوٹ پر ووٹوں کی خرید و فروخت‘

شکور رحیم، اسلام آباد20 فروری 2015

پاکستانی سینیٹ کے مارچ میں ہونے والے الیکشن کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ آج جمعہ بیس فروری کو مکمل ہو گیا۔ نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں 23 اور 24 فروری تک دائر کی جا سکیں گی۔

https://p.dw.com/p/1EfB1
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستان کے اس 104 رکنی پارلیمانی ایوان بالا میں آئندہ ماہ اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہونے والے سینیٹروں کی 52 خالی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ اس وقت حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سینیٹ کے انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنی پوزیشن مستحکم تو کرے گی لیکن اس کی نشستیں پی پی پی پی کی نشستوں کے برابر رہنے کا امکان ہے۔ واضح اکثریت سے محرومی کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ممکنہ طور پر آئندہ بھی ایوان بالا میں طاقتور جماعت رہے گی۔

پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ پارلیمانی اور سیاسی امور کے ماہر صحافی عامر وسیم کا کہتے ہیں، ’’اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر پی پی پی کی قیادت نے اپنے سیاسی کارڈ ذہانت سے استعمال کیے تو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے اہم عہدے بھی اسی کے پاس رہیں گے۔‘‘ عامر وسیم نے کہا کہ سینیٹ میں نئی جماعتوں کے امیدوراوں کی آمد بھی متوقع ہے اور ان میں سرفہرست عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے جو سینیٹ میں پہلی بار نمائندگی حاصل کر کے تاریخ رقم کرے گی۔

تاہم ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سینیٹ الیکشن میں بااثر اور مالدار شخصیات کی جانب سے نشستوں کے لیے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ووٹ خریدے جانے سےمتعلق خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں صوبہ بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی رشوت پیش کی جا رہی ہے۔

Pakistan Islamabad Imran Khan
عمران خان کی تحریک انصاف پہلی بار سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گیتصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

بلوچستان کی پیچیدہ اور کثیرالجہتی سیاست کی وجہ سے وہاں صوبائی ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی سبب وہاں پر سیاسی جماعتوں کے بجائے پیسہ اور اثر و رسوخ استعمال کرنے والے آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں سے چار سینیٹرز کے انتخاب کے لیے فاٹا کے بارہ اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن سے متعلق ہر بار یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ووٹ سب سے زیادہ رقم کی پیشکش کرنے والے امیدوار کے حصے میں آتے ہیں۔ فاٹا کی نشستوں پر بھاؤ تاؤ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قبائلی علاقہ جات سے چار نشستوں کے لیے 43 افراد نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی سلیم صافی کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات قریب آتے ہی خیبر پختوانخوا اور فاٹا میں ’منتخب اراکین کی منڈی‘ لگ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ایک سمجھوتہ شدہ احتساب کے قومی ادارے (نیب)، مصلحتوں کے سہارے چلنے والے میڈیا اور الیکشن کمیشن کے سینیٹ کے انتخاب کے لیے غیر موزوں طریقہ انتخاب کی وجہ سے ہر مرتبہ ڈنکے کی چوٹ پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس علاقے سے میں ہوں، وہاں یہ کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔‘‘

سلیم صافی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ سینیٹرز کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اس کا انعقاد خفیہ کے بجائے کھلی رائے شماری سے کرائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کھلے عام ووٹنگ ہو گی تو پھر اخلاقی دباؤ کی وجہ سے اراکین اپنے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کر پائیں گے اور یوں زیادہ شفافیت دیکھنے میں آئے گی۔