1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینکڑوں پاکستانی خاندانوں کی افغانستان ہجرت

امتیاز احمد14 جون 2014

شمال مغربی قبائلی علاقے میں آباد سینکڑوں پاکستانی خاندان حکومتی فوج اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابین ہونے والی لڑائی کے باعث سرحد پار کرتے ہوئے افغانستان چلے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CIGe
تصویر: AFP/Getty Images

ایک افغان اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی قبائلی خاندان حکومت اور طالبان کے مابین جاری لڑائی اور ممکنہ بڑے فوجی آپریشن کے خطرے کے پیش نظر اپنے گھر بار چھوڑ کر افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان آرمی نے حال ہی میں متعدد مرتبہ افغان سرحد کے قریب واقع ان علاقوں پر بمباری کی تھی۔ اس کے بعد طالبان نے بھی کراچی جیسے بڑے اور اہم ایئر پورٹ پر حملہ کیا۔ دوسری جانب تقریباﹰ چھ ماہ کے وقفے کے بعد امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے بھی ممکنہ فوجی آپریشن سے پہلے شمالی وزیرستان کے عوام کو وہاں سے نقل مکانی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

پاکستان نے ماضی میں لاکھوں افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی اور یہ افغان باشندے اب بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں قیام پذیر ہیں لیکن اس مرتبہ معاملہ الٹا ہے۔ اب پاکستانی شہری افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔ افغانستان کے مشرقی صوبے خوست کے گورنر جبار نعیمی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ تقریباﹰ تین سو پاکستانی خاندان مہاجرت اختیار کرتے ہوئے افغانستان پہنچے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین لڑائی سے خوفزدہ تھے۔‘‘

ان پاکستانی مہاجرین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے ان میں سے تقریباﹰ 100 خاندانوں کو امداد فراہم کی ہے جبکہ باقی خاندانوں کی بھی جلد امداد کی جائے گی۔ ہم پولیو کے بارے میں فکر مند ہیں، ہم نے انہیں ویکسیسن بھی فراہم کی ہے۔‘‘

کراچی حملے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اس وقت قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر اور پوری طاقت کے ساتھ فوجی آپریشن کرنے کا سوچ رہی ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں مزید قبائلی ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ قبائلی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پیش نظر پاکستان نے بھی مہاجر کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن چند روز پہلے طالبان کے ایک مقامی گروپ کے رہنما حافظ گل بہادر نے ایسے پمفلٹ تقسیم کیے تھے، جن پر قبائلیوں کو حکومتی کیمپوں میں جانے سے روکا گیا تھا اور افغانستان یا ایسی جگہ منتقل ہونے کا کہا گیا تھا، جہاں سے افغانستان جانا آسان ہو۔ قبل ازیں ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ ممکنہ فوجی آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند اور ان کے سرکردہ رہنما وہاں سے فرار ہو رہے ہیں۔