سیفر انٹرنیٹ ڈے
11 فروری 2014گیارہ فروری کو دنیا بھر میں گیارہویں مرتبہ سیفر انٹرنیٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہر مکتبہ فکر اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے مل جل کر انٹرنیٹ کے استعمال کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کرنے کا کہا گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک طرف خفیہ اداروں کی جانب سے نگرانی کا عمل ہے تو دوسری طرف ہیکرز کے حملے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جن میں سائبر حملوں کے دوران شہریوں کے کوائف بڑی تعداد میں چوری کر لیے گئے۔
ڈیٹا کے تحفظ کے جرمن ادارے کی مندوب آندریا فوسہوف کے بقول وہ انٹرنیٹ پر جرائم پیشہ سرگرمیوں کے خاتمے اور ڈیٹا سکیورٹی کی پالیسیوں کے مابین توازن قائم کرنا چاہتی ہیں۔ اس بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’ اگر کوائف اور اعداد و شمار کا تحفط عالمی موضوع ہے تو اس کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی عالمی سطح پر ہی ہونے چاہیں۔ اسی وجہ سے ڈیٹا سکیورٹی کے اہلکاروں کی خواہش اور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد یورپی سطح پر اس حوالے سے ضابطے بنائے جائیں۔ جن کے ذریعے شہریوں کے کوائف کا بہتر طور پر تحفظ فراہم کیا جا سکے‘‘۔
سیفر انٹرنیٹ پروگرام یورپی کمیشن کی جانب سے شروع کیا جانے والا ایک منصوبہ ہے۔ اس دن منعقد ہونے والی تقریبات میں انٹرنیٹ کو بچوں اور بالغان دونوں کے لیے ہر طرح سے محفوظ بنانے کے موضوع پر تبادلہء خیال کیا جاتا ہے۔ 2004ء میں پہلی مرتبہ یہ دن منایا گیا تھا۔ اب ان دس برسوں کے دوران دنیا کے چھ براعظموں اور سو سے زائد ممالک میں اس دن کی مناسبت سے تقریبات منقعد ہوتی ہیں اور ان میں یورپی یونین کے 28 رکن ریاستیں بھی شامل ہیں۔
آندریا فوسہوف کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ سیکورٹی کے حوالے سے ان کے ادارے کے اختیارات محدود ہیں۔’’ ڈیٹا سکیورٹی اور معلومات کی آزادی کے حوالے سے اس ادارے کی ذمہ داریاں قانونی طور پر طے ہیں۔ اولین ذمہ داری سرکاری محکموں میں جرمن قانون کے تحت کوائف کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے بعد سرکاری افسران اور ارکان پارلمیان کواس موضوع کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ میں ان افراد کو مشاورت کے زیادہ اور بہتر امکانات مہیا کروں گی‘‘۔
انٹرنیٹ کے تحفظ اور آزادیء اظہار کے لیے سرگرم تنظیموں کا موقف ہے کہ ابلاغ کے اس ذریعے کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اتنی ہی تیزی سے مختلف اداروں کی جانب سے اس کی نگرانی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیٹا سکیورٹی جہاں حکومتی اداروں کے لیے اہم ہے، وہیں اگر اس کا تحفظ نہ کیا جائے تو عوام بھی براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ آندریا فوسہوف عوامی مسائل کو کس طرح سے حل کریں گی؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’ گزشتہ برس دس ہزار سے زائد جرمن شہریوں نے اپنی شکایات درج کرائی تھیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر شہریوں کو یہ احساس ہو کہ حکام ان کے کوائف کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہے تو وہ کسی بھی وقت ڈیٹا سکیورٹی کے ادارے سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ہم عوام کی جانب سے مہیا کی جانے والی معلومات استعمال کرتے ہوئے پالیساں تیار کریں گے، تا کہ شہریوں کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں ‘‘۔
آندریا فوسہوف نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے استعمال کو محفوظ بنانے کے لیےعالمی سطح پر قانون سازی کریں اور کسی معاہدے کو پایہء تکمیل تک پہنچائیں۔ ان کے بقول اس حوالے سے ڈیٹا سکیورٹی کے لیے کام کرنے والے اداروں سے منسلک افراد کے پاس عالمی سطح پر سخت قوانین کے حق میں کوششیں کرنے کے امکانات بہت محدود ہیں۔