1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سیاحوں کی جنت‘، دہشت کے سائے میں

23 جون 2013

پاکستان میں پولیس اور سکیورٹی حکام کے مطابق گزشتہ رات مسلح افراد نے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں ایک ہوٹل پر دھاوا بول دیا اور 9 غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کر دیا۔ پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/18ucE
تصویر: Getty Images

پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق مرنے والے غیر ملکی سیاحوں میں سے پانچ کا تعلق یوکرائن سے، تین کا چین سے اور ایک کا روس سے ہے۔ ایک چینی سیاح زندہ بچ گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے حملہ آوروں کی زَد میں آنے سے بچ پایا۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ حکومت نے گلگت بلتستان کے پولیس چیف کو معطل کر دیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ چوہدری نثار نے پارلیمنٹ کو بتایا:’’حملہ آوروں نے دو گائیڈز کو اغوا کیا تھا اور اُنہی کے ذریعے وہ اس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ فائرنگ کے دوران ایک گائیڈ مارا گیا جبکہ دوسرے کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور اُس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے:’’حکومت پاکستان دہشت گردی کے اس بے رحمانہ واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہے اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ جن لوگوں نے بھی یہ بہیمانہ واردات کی ہے، وہ چین اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘

شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی تمام تر خطرات کے باوجود چند ایک سیاحوں کو اِدھر کا رُخ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے
شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی تمام تر خطرات کے باوجود چند ایک سیاحوں کو اِدھر کا رُخ کرنے پر مجبور کر دیتی ہےتصویر: Senator Film Verleih

یہ سیاح برف سے ڈھکی 8125 میٹر بلند دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ سیاح اس چوٹی کو سر کرنے کی نیت سے وہاں تھے یا محض سیر کی غرض سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ دور افتادہ علاقہ مہم جو سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔

گلگت بلتستان صوبے کے ایک سینئر پولیس افسر شیر علی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’نامعلوم افراد گزشتہ رات دیر گئے اُس ہوٹل میں داخل ہوئے، جہاں یہ غیر ملکی سیاح قیام پذیر تھے اور اُنہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔‘‘ اس سے پہلے شیر علی نے مرنے والے سیاحوں کی تعداد دَس بتائی تھی تاہم بعد ازاں تازہ معلومات کی روشنی میں بتایا گیا کہ مرنے والے دَس افراد میں نو غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ اُن کی پاکستانی خاتون گائیڈ بھی شامل تھی۔ دیا میر کے ایک پولیس افسر محمد نوید نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ واقعہ ہفتے کی شب ہی دس بجے کے قریب پیش آ گیا تھا اور یہ کہ یہ غیر ملکی سیاح کوہ پیما تھے۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مقامی سرکاری عہدیدار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حملہ آوروں نے سب سے پہلے ان سیاحوں کے ساتھ جانے والے پاکستانیوں کو مارا پیٹا، اُن سے نقدی چھین لی اور اُنہیں باندھ دیا۔ پھر اُنہوں نے ان پاکستانیوں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور ایک خاتون گائیڈ کو غالباً اس لیے ہلاک کر دیا کہ اُس کا تعلق شیعہ اقلیت سے تھا۔ بعد ازاں حملہ آوروں نے غیر ملکی سیاحوں سے نقدی اور اُن کے پاسپورٹ لے لیے اور اُنہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی اُن کے جنود الحفصہ نامی ایک نئے یونٹ نے کی ہے۔ اس سے پہلے نیوز ایجنسی روئٹرز نے بتایا تھا کہ اس واقعے کی ذمے داری جند اللہ نامی ایک پاکستانی عسکریت پسند گروپ نے قبول کر لی ہے۔

روئٹرز نے بتایا تھا کہ جند اللہ نامی ایک پاکستانی عسکریت پسند گروپ کے ایک ترجمان احمد مروت نے ٹیلیفون پر اس نیوز ایجنسی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’یہ غیر ملکی ہمارے دشمن ہیں اور ہم فخر کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں قتل کیا ہے اور ہم مستقبل میں بھی ایسے حملے کرتے رہیں گے۔‘‘

ایک پولیس افسر کے مطابق مرنے والے سیاح کوہ پیما تھے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ نانگا پربت کی چوٹی کو سر کرنے کی نیت سے وہاں گئے ہوئے تھے
ایک پولیس افسر کے مطابق مرنے والے سیاح کوہ پیما تھے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ نانگا پربت کی چوٹی کو سر کرنے کی نیت سے وہاں گئے ہوئے تھےتصویر: Senator Film Verleih

یہی گروپ اس سے پہلے شمالی علاقوں میں پاکستانی کی شیعہ اقلیت کے خلاف متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔ ان میں فروری 2012ء میں گھات لگا کر کیا جانے والا وہ حملہ بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں ایک بس میں سوار اٹھارہ مسافروں کو بس سے اتار کر سڑک کنارے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پولیس افسر شیر علی کے مطابق یہ حملہ گزشتہ رات ایک بجے کے قریب عمل میں آیا، جس کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حملہ آور نیم فوجی پولیس فورس فرنٹیئر کانسٹیبلری کی یونیفارمز پہنے ہوئے تھے۔ پاکستانی وزیر داخلہ کے مطابق حملہ آور گلگت سکاؤٹس کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار کے مطابق بڑے پیمانے پر سکیورٹی اہلکار اس علاقے میں روانہ کر دیے گئے ہیں۔ اس عہدیار نے بتایا:’’چونکہ یہ علاقہ بہت دور و اقع ہے اور وہاں تک سڑک یا ٹرانسپورٹ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے لاشوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے وہاں سے واپس لایا جائے گا۔‘‘

گلگت بلتستان کی سرحدیں چین اور کشمیر سے ملتی ہیں اور اسے پاکستان کے قدرے محفوظ علاقوں میں سے ایک تصور کیا جاتا رہا ہے تاہم حالیہ برسوں کے دوران یہاں عسکریت پسندوں نے خاص طور پر شیعہ اقلیت کے ارکان کو بار بار حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔

8125 میٹر بلند نانگا پربت دنیا کا 9 واں بلند ترین پہاڑ ہے
8125 میٹر بلند نانگا پربت دنیا کا 9 واں بلند ترین پہاڑ ہےتصویر: Senator Film Verleih

یہ پہلا موقع ہے کہ عسکریت پسندوں نے اس صوبے میں، جو اپنے خوبصورت قدرتی مناظر کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، سیاحوں کو حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ اس طرح ’سیاحوں کی جنت‘ کہلانے والا یہ علاقہ اب دہشت گردی کے سائے میں ہے اور سیاحوں پر اس حملے سے ملک کی سیاحت کی صنعت کو، جو پہلے ہی آخری دموں پر ہے، ایک اور شدید دھچکا لگے گا۔ اسی طرح یہ واقعہ اُس نو منتخب حکومت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے، جسے اقتدار سنبھالے ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں۔

آج کل غیر ملکی سیاح ویسے بھی پاکستان کا رُخ کم ہی کرتے ہیں تاہم شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی پھر بھی چند ایک سیاحوں کو اِدھر کا رُخ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ علاقہ ہندو کُش، قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلہء کوہ کے سنگم پر واقع ہے۔

گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے علاقے کی سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اُنہوں نے بتایا کہ پورے علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر بھی حملہ آوروں کی تلاش میں شریک ہے۔

(aa/km/reuters,ap,afp