سڈنی کیفے: مسلح شخص کے ہاتھوں متعدد افراد یرغمال
15 دسمبر 2014مقامی میڈیا کے مطابق پیر کی صبح کم از کم ایک مسلح شخص ایک کیفے میں داخل ہوا اور اس کیفے میں موجود افراد کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنا لیا۔ مقامی میڈیا پر دکھائے جانے والے مناظر میں متعدد افراد کھڑیوں کے شیشے کے ساتھ لگے اور ہاتھ بلند کیے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان تصاویر میں ایک سیاہ پرچم بھی دکھائی دے رہا ہے، جس پر مسلمانوں کا کلمہ درج ہے۔
لنڈٹ چاکلیٹ کیفے میں پیش آنے والے اس واقعے کے آغاز کے چار گھنٹے بعد نیو ساؤتھ ویلز اسٹیٹ پولیس کے کمشنر انڈریو نے بتایا کہ اب تک اس مسلح شخص سے رابطہ نہیں ہو پایا ہے اور اس شخص کی اس کارروائی کے محرکات کے علاوہ اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہو پایا ہے کہ کیفے میں کتنے افراد یرغمالی ہیں۔ ’ہم فی الحال یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’ہمیں اس وقت مسلح شخص کے ہاتھوں یرغمالی بنائے گئے افراد کا خیال ہے اور ہم اس صورت حال سے اسی تناظر میں نمٹ رہے ہیں۔
یہ کیفے سڈنی کے اہم ترین تجارتی علاقے مارٹن پلیس ميں واقع ہے، جو کاروبار، بینکوں اور شاپنگ سینٹرز کے حوالے سے مشہور ہے۔
اس واقعے کے بعد سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے علاقے کو اپنے حصار میں لے لیا اور اس کیفے تک آنے والی تمام گلیاں بند کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ عوام سے بھی کہا گیا کہ وہ مارٹن پلیس کا رخ نہ کریں۔ یہ بات اہم ہے کہ اس علاقے میں ریزور بینک آف آسٹریلیا کے علاوہ ریاستی وزیراعظم کا دفتر اور متعدد اہم بینکوں کے ہیڈکوارٹرز بھی واقع ہیں۔ مارٹن پلیس سے کچھ ہی فاصلے پر ریاستی پارلیمان کی عمارت بھی واقع ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ايک مقامی ٹی وی چینل کی فوٹیج کے حوالے سے لکھا ہے کہ متعدد افراد کھڑکیوں سے لگے اور ہاتھ ہوا میں بلند کیے نظر آ رہے ہیں جب کہ دو افراد نے ایک سیاہ جھنڈا تھام رکھا ہے، جس پر عربی میں’کلمہ طیبہ‘ یا ’اعلانِ ایمان‘ درج ہے۔
آسٹریلوی یونیورسٹی آف آکلینڈ کے اسلامک اسٹڈیز ریسرچ شعبے کے سربراہ زین علی کے مطابق ٹی وی تصاویر میں اس جھنڈے کا صرف نچلا حصہ نظر آتا ہے، جس پر غالباﹰ کلمہ درج ہے۔ علی کے مطابق ان تصاویر میں صرف لفظ ’محمد‘ پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سیاہ جھنڈے پر یہ کلمہ دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ استعمال کرتی ہیں۔ آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ کے مطابق، ’‘فی الحال ہم نہیں جانتے کہ اس کے درپردہ کوئی سیاسی محرکات ہیں یا نہیں، تاہم اشارے بتاتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘
ٹونی ایبٹ نے ملکی دارالحکومت کینبرا میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ افراد موجود ہیں، جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘
ٹونی ایبٹ نے بتایا کہ اس واقعے کے تناظر میں ملکی قومی سلامتی کمیٹی کی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا۔ ’سیاسی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کا واحد مقصد عوام کو خوف زدہ کرنا ہوتا ہے۔‘ تاہم انہوں نے واضح کیا، ’آسٹریلیا ایک پر امن، کھلا اور بڑے دل کے مالک معاشرے کا حامل ملک ہے، جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں تمام آسٹریلوی شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے روزمرہ کاموں کو روز مرہ کی طرح نمٹائیں۔‘