1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سماجی ویب سائٹس‘ نوجوان افغانوں کی مایوسی کا علاج

عدنان اسحاق12 نومبر 2014

افغانی معاشرے کو انتہائی قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کے سخت سماجی ضوابط کی وجہ سے نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہو رہی ہے تاہم اب اسمارٹ فونز کی صورت میں انہوں نے اپنی مایوسی کا علاج دریافت کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dlum
تصویر: DW

افغانستان کے انتہائی قدامت پسند معاشرے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نجی سطح پر بات چیت کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔ افغانستان میں آزاد خیال حلقوں میں بھی مرد اور خواتین کے مابین براہ راست بات چیت کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اب انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے افغان سوسائٹی میں انقلاب لانا شروع کر دیا ہے ۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں زیادہ تر ازدواجی بندھن والدین کی مرضی سے طے پاتے ہیں وہاں اب محبت میں گرفتار ہونے والے چند جوڑوں کی شادی کا سہرا بھی سماجی ویب سائٹس کے سر جاتا ہے۔ متعدد نوجوان جوڑے اسمارٹ فون کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہوئے ایک دوسرے سے رابطے کرتے ہیں اور اپنے دل کی بات کہنے کے لیے ملاقات بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ہی طے کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب نوجوان لڑکیاں پیغام رسانی کے ذریعے اعلی حکام پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایک حکومتی افسر نے بتایا کہ انہیں تواتر سے خواتین کی جانب سے پیغام موصول ہوتے ہیں۔ ان پیغامات میں زیادہ تر روزگار دلانے کی بات کی جاتی ہے جبکہ کچھ میں پیار محبت کی خواہش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ ’’ کچھ خواتین مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور مجھے محبت کے پیغامات بھیجتی ہیں۔ لیکن میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا پاس رکھتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیتا ہوں۔‘‘ اسی طرح دوسری جانب انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے خواتین کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک 18سالہ طالبہ کے بقول فیس بک پر تصویر اپ لوڈ کرنے کے بعد اسے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔

Afghanistan Internet Cafe
تصویر: DW

کابل یونیورسٹی میں کمپیوٹر شعبے سے منسلک ایک استاد کا کہنا تھا کہ ’’سماجی ویب سائٹس کے ذریعے پہلے صرف ایک دوسرے سے بات چیت کی جاتی تھی تاہم اب نوجوان اسے اپنا جیون ساتھی منتخب کرنے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر انہوں نے مزید بتایا کہ لوگ بات چیت کے لیے فیس بک اور جی میل استعمال کر رہے ہیں کیونکہ عام حالات میں یہ آزادانہ انداز میں یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔

افغانستان میں تھری جی نیٹ ورک 2012ء میں آیا تھا۔ اس کے بعد سے سماجی ویب سائٹس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ فیس بک کے صارفین کی تعداد نصف ملین یعنی پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ افغانستان کے نیشنل کمیونیکیشن ٹیکنالوجی آلائنس کے سربراہ عمر منصور انصاری کے مطابق ’’سوشل میڈیا ان افراد کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے، جس کے ذریعے وہ دوسرے سے اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکتے ہیں اور اپنی سوچ کے مطابق جیون ساتھی تلاش کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ انہیں وہ فوائد کہا جاسکتا ہے، جو انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان سے افغان معاشرے کو ہو رہے ہیں۔