1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں سری لنکن آیا کا سر قلم کر دیا گیا

Maqbool Malik10 جنوری 2013

سعودی عرب میں ایک ایسی نوجوان سری لنکن آیا کا سر قلم کر دیا گیا ہے، جس کے خلاف یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اس نے اپنی زیر نگرانی پلنے والی ایک شیر خوار بچی کو قتل کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/17HOw
تصویر: AP

سری لنکا کی حکومت نے اس خاتون کے لیے معافی کی درخواست کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس پی اے  نے سعودی وزارت داخلہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ بدھ کے روز سری لنکن آیا ریزانہ نفیق کا ملکی دارالحکومت ریاض کے ایک نواحی قصبے میں سر قلم کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ مجرمہ نے  بچی کی ماں کے ساتھ کسی بات پر جھگڑے کے بعد اس شیر خوار بچی کا گلہ گھونٹ دیا تھا۔

سری لنکا کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سال 2005ء میں ریزانہ کے خلاف اس کے سعودی آجر نے مقدمہ درج کرایا تھا کہ اس غیر ملکی خاتون کو آجر کی جس شیر خوار بچی کی دیکھ بھال پر معمور کیا گیا تھا، اُسے اس نے قتل کر دیا تھا۔ اس پرریزانہ نفیق کو سال 2007 میں موت کی سزا سنا دئی گئی تھی۔

کولمبو حکومت نے ریزانہ کے لیے موت کی سزا کے خلاف اپیل کی تھی لیکن 2010 ء میں سعودی سپریم کورٹ نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے سزا برقرار رکھی تھی۔ سری لنکا کی وزارت خارجہ کے مطابق بعد میں صدر مہیندا راجا پاکسے نے بھی دو مرتبہ ذاتی طور پر سعودی حکومت سے اپنی اس ہموطن کی معافی کی اپیل کی تھی، جسے رد کر دیا گیا تھا۔

Sri Lanka Präsident Mahinda Rajapaksa Colombo
سعودی حکومت نے ریزانہ کی معافی کےلیے سری لنکا کے صدر مہیندا راجا پاکسے کی اپیلوں کو بھی مسترد کر دیا تھاتصویر: AP

عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ریزانہ نفیق کی سزائے موت پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ریزانہ کے برتھ سرٹیفیکیٹ کے مطابق جب اس سے یہ جرم سرزد ہوا تھا، تب وہ خود بھی نابالغ تھی اور اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ریزانہ کی سزائے موت پر عمل درآمد سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر ریزانہ کو اس کے دفاع کا پورا موقع نہیں دیا گیا تھا اور اسے اپنے وکیل تک رسائی بھی حاصل نہیں تھی، اور یہ بات مقدمے کی شفاف سماعت سے متعلق کئی سوالات پیدا کرتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے بھی اس سری لنکن خاتون کا سر قلم کیے جانے کے واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی خواتین کے حقوق سے متعلق سینئر ریسرچر نیشا واریا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ملزمان کو ان جرائم کی بھی سزا دی جاتی ہے، جو انہوں نے کم عمری میں کیے ہوتے ہیں۔ 

Golf-Kooperationsrat Dezember 2011
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریزانہ نفیق سعودی عرب کے نظام عدل میں موجود خامیوں کی بھینٹ چڑھی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سعودی خواتین اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بڑی حد تک افریقہ اور جنوبی ایشیا سے بلائی گئی ملازماؤں پر انحصار کرتی ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں اگر کسی خاتون خانہ نے کسی ملازم سے بدسلوکی کی ہو تو ملازم نے اس کا بدلہ آجر کے بچوں سے لیا ہو۔

دوسری طرف ریزانہ نفیق کی سزائے موت کے واقعہ پر احتجاج کے طور پر سری لنکا نے سعودی عرب میں تعینات اپنے سفیر کو فوری طور پر وطن واپس بلا لیا ہے۔

rh / mm (Reuters)