1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق تھائی وزیراعظم یِنگ لَک شیناواترا گرفتار

افسر اعوان23 مئی 2014

تھائی لینڈ میں حکومت اپنے ہاتھوں میں لینے کے ایک روز بعد فوجی سربراہ نے سابق وزیراعظم یِنگ لک شیناواترا سمیت معزول کی گئی کابینہ اور حکمران جماعت کے رہنماؤں آج طلب کیا۔ بعد ازاں شیناواترا کو گرفتار کر لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1C5IW
Yingluck Shinawatra 6.5.14
تصویر: picture alliance/dpa

اطلاعات کے مطابق سابق خاتون وزیراعظم کی بہن اور بہنوئی کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ قبل ازیں فوج کی جانب سے معزول کی گئی حکومت کے تمام ارکان کے علاوہ شیناواترا کے خاندان کے ارکان کو بھی طلب کیا گیا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق فوری طور پر یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وزیراعظم یِنگ لک شیناواترا اور ان کے خاندان کے بااثر افراد سمیت 100 سے زائد افراد کو فوج کی جانب سے کیوں طلب کیا گیا تھا۔

تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایوت چن اوچا کا مؤقف تھا کہ ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بدامنی اور عدم استحکام کے تناظر میں یہ اقدام کیا گیا
تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایوت چن اوچا کا مؤقف تھا کہ ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بدامنی اور عدم استحکام کے تناظر میں یہ اقدام کیا گیاتصویر: imago

بینکاک کے ایک فوجی مرکز میں سیاستدانوں کی طلبی کے بعد تھائی لینڈ کی فوج نے ملک کی 155 نامور شخصیتوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان میں سابق وزیر اعظم ینگ لَک شیناوترا، اُن کے کئی رشتہ دار اور معزول حکومت کے متعدد سیاسی لیڈر بھی شامل ہیں۔ فوج کی طرف سے ان افراد پر سفری پابندی کا یہ اعلان ملک میں فوجی بغاوت کے سرکاری اعلان کے ایک روز بعد آج جمعہ کوکیا گیا۔

کئی ماہ تک حکومت کے خلاف جاری رہنے والے پر مظاہروں کے بعد تھائی فوج نے بدھ کے روز ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا تاہم اس کے ایک روز بعد تھائی فوج نے جمعرات 22 مئی کو حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے فوجی سربراہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ ملک میں امن کی صورتحال برقرار رکھنے اور تنازعات کے حل کے لیے کیا گیا ہے۔ تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایوت چن اوچا کا مؤقف تھا کہ ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بدامنی اور عدم استحکام کے تناظر میں یہ اقدام کیا گیا۔

فوج کی جانب سے حکومت سنبھالے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی تھائی فوجیوں نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حکومت کے حق اور مخالفت میں مظاہرے کرنے والوں کے سربراہان بھی فوجی حراست میں ہیں۔

تھائی فوجیوں نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو حراست میں لے لیا
تھائی فوجیوں نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو حراست میں لے لیاتصویر: Reuters

تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اقوم متحدہ، یورپی یونین اور فرانس کی طرف سے بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جاپان نے فوجی بغاوت کو افسوسناک قرار دیا ہے جبکہ آسٹریلیا نے اس پر ’انتہائی سنجیدہ تحفظات‘ کا اظہار کیا ہے۔ سنگاپور اور جنوبی کوریا نے اپنے شہریوں کو تھائی لینڈ کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اس اقدام کے باعث تھائی لینڈ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات پڑیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تھائی لینڈ کے لیے آگے کا راستہ جلد از جلد ایسے انتخابات ہونا چاہییں، جو لوگوں کی امنگوں کے عکاس ہوں۔ انہوں نے زیر حراست سیاستدانوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔