1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زخموں اور چوٹوں کو بیکٹیریا سے بچانے کے لیے خاص قسم کی پٹی

Kishwar Mustafa27 جولائی 2012

یورپی سطح پر کیمیا دانوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا جو جرمن شہر مائنز میں قائم ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پولیمر ریسرچ کے تعاون سے Bacteriosafe پٹیاں تیار کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15ew8
تصویر: C. Costard

جرمن ہسپتالوں میں ہر سال 30 ہزار مریض اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کرنے والی انفیکشن یا عفونت کے حملے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ انفیکشن زیادہ تر چوٹوں اور زخموں کو اپنا شکار بناتی ہے اور یہ انسانی جسم میں جراحی کے ذریعے لگائی جانے والی بافتوں میں نشو و نما پاتی ہے۔ جرمن شہر مائنز میں قائم ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پولیمر ریسرچ سے تعلق رکھنے والے محققین زخموں پر باندھی جانے والی ایک ایسی پٹی کے بارے میں ریسرچ کر رہے ہیں جو ایک خاص قسم کے مادے کی تہہ سے ڈھکی ہوتی ہے اور جس کا کام بیکٹیریا کو مارنا اور انہیں زخموں تک پہنچنے سے روکنا ہوتا ہے۔

زخموں اور چوٹوں کو بیکٹیریا سے بچانے کے لیے اس خاص قسم کی پٹی کا خیال دراصل برطانیہ کے شہر برسٹل میں قائم ’چلڈرنز برن سینٹر‘ سے آیا جہاں بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر Amber Young جل کر زخمی ہونے والے ہزاروں بچوں کا علاج کرتی ہیں اور ہر سال اس ہسپتال میں علاج کی غرض سے آنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور سے scald injuries یا کسی بہت گرم سیال چیز یا بھاپ سے جل کر زخمی ہونے والے بچے اسی ہسپتال میں علاج کے لیے لائے جاتے ہیں۔

Symbolbild Kind mit Verband
جلنے کی صورت میں زخم دیر سے مندمل ہوتا ہےتصویر: Fotolia/Cult12

زیادہ تر scald injuries کھولتی ہوئی گرم چائے یا کافی سے ہوتی ہیں۔ کچن کاؤنٹر یا کسی اور جگہ رکھے گئے ایسے گرم مشروبات کو ہاتھ میں لینے کی جستجو میں بچے خود کو جلا لیتے ہیں۔ ایسے بچوں کو والدین اسی ہسپتال میں علاج کے لیے لے کر آتے ہیں تاہم علاج کے بعد جب یہ بچے واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں تو بعد میں بھی انہیں رہ رہ کر بخار آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بخار کا آنا زیادہ تر بے ضرر ہوتا ہے اور یہ جسم کے مدافعتی نظام کے رد عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم یہ کیفیت زیادہ دیر تک رہے تو ایک خطرناک بیکٹیریل انفیکشن کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ انفیکشن جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں زخموں پر لگی پٹی کو فوری طور سے ہٹا کر زخموں کا مزید علاج ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ڈاکٹروں کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی کیونکہ پٹی بدلنے کا مطلب ہوتا ہے بچے کو ایک نئی اذیت میں ڈالنا جو کوئی بھی ڈاکٹر نہیں چاہتا۔ اس مشکل کو آسان کیا ماہر امراض اطفال ڈاکٹر Amber Young نے۔ انہوں نے ادویات تیار کرنے والے کیمیا دانوں سے گزراش کی کہ وہ زخموں پر باندھنے کے لیے ایسی پٹی تیار کریں جس پر خاص قسم کے کیمیکلز کی تہہ چڑھی ہوئی ہو یا وہ coated ہوں اور یہ کیمیکلز زخموں پر بیکٹیریا کو حملے نہ کرنے دیں یا اگر کسی وجہ سے بیکٹیریا زخموں پر حملہ آور ہو بھی جائیں تو فوری طور پر ان کی نشاندہی ہو جائے۔

Offene Wunde
کھلے زخم کو بند کرنا مشکل ہوتا ہےتصویر: picture alliance / Klaus Rose

یورپی سطح پر کیمیا دانوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا جو جرمن شہر مائنز میں قائم ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پولیمر ریسرچ کے تعاون سے Bacteriosafe پٹیاں تیار کرنے کے لیے یورپی یونین کے ماہرین کے پروجیکٹ Embek1 میں شامل ہیں۔

ماہرین نے اس coated پٹی کی تیاری میں پولیسٹر، پولی پروپائلین اور نائلون کو شامل کیا ہے کیونکہ کیمیا دانوں کے مطابق یہ مادے بیکٹیریا سے تحفظ فراہم کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی مادے پلاسٹک کے دیگر سامان مثال کے طور پر پلاسٹک بیگز، پلاسٹک کے بنے ہوئے کپوں اور ٹیکنیکل ٹیکسٹائل سازی میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ محققین اب ایسی ڈریسنگز اور بینڈیجز پر ریسرچ کر رہے ہیں جو زخموں میں انفیکشن ہو جانے کی نشاندہی کر سکیں۔

km / mm (MP Research)