1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستمیانمار

روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کُشی‘ کے پانچ برس

25 اگست 2022

ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں نے جمعرات کو بنگلہ دیش میں ’نسل کُشی کا یادگاری دن‘ ریلیاں نکال کر اور اس انسانیت سوز واقعے کی مذمت کر تے ہوئے منایا۔

https://p.dw.com/p/4G1hm
Bangladesch Proteste der Rohingya zum 5. Jahrestag der Vetreibung aus Myanmar
تصویر: Munir uz Zaman/AFP

 میانمار میں فوجی آپریشن کے بعد ملک سے فرار ہونے اور مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور روہنگیا باشندوں نے جمعرات 20 اگست کو بنگلہ دیش میں 'نسل کشی‘ کے واقعات کے پانچ سال مکمل ہونے پر ریلیاں نکالیں۔

اگست 2017 ء میں تقریباً 750,000 روہنگیا مسلمانوں نے حملوں سے بچنے کے لیے بنیادی طور پر بدھ مت کے پیروکاروں کے ملک میانمار کی سرحدیں پار کرنا شروع کیں۔ ان میں سے اکثریت نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی اس دوران روہنگیا باشندوں کا 'قتل عام‘ ہوا۔ ان واقعات کو  اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں نسل کشی کے ایک تاریخی مقدمے کے طور پر درج کر لیا گیا ہے۔

آج تقریباً دس لاکھ روہنگیا، جن میں سے نصف کی عمر 18 سال سے کم ہے، ان کیمپوں میں یا جھونپڑیوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جہاں مون سون کی بارشوں کے دوران سیوریج کا پانی اُبل پڑتا ہے اور ندی کی مانند گندگی بہنے لگتی ہے۔

یورپی یونین روہنگیا کی وطن واپسی کے لیے کیا کر سکتی ہے؟

Bangladesch l Rohingya Camp l Enayetullah
بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا مسلمانوں کا مہاجر کیمپتصویر: Zobaer Ahmed/DW

کیمپوں میں ریلیوں کا انعقاد

جمعرات 25 اگست کو بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے ریلیاں نکالیں۔ اس موقع پر اپنے احتجاج کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے ان روہنگیا مسلمانوں نے ہاتھوں میں بینرز اُٹھا رکھے تھے، جن پر ایسے نعرے درج تھے، جن میں روہنگیا مسلمان اپنی آبائی ریاست میں اپنی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ایک نوجوان رہنما مونگ ساوید االلہ  اس موقع پر آبدیدہ نظر آ رہے تھے۔

انہوں نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' آج وہ دن ہے، جس میں ہزاروں روہنگیا مارے گئے تھے۔‘‘ ساوید اللہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزینوں کی بستی کوتوپالونگ میں منعقد ہونے والی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا،'' 25 اگست سے وابستہ درد کو صرف روہنگیا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ آج سے پانچ سال پہلے اس دن تقریباً دس لاکھ روہنگیا بے گھر ہوئے تھے۔ 2017 ء میں اس دن ہمارے 300 سے زائد گاؤں جلا کر راکھ کر دیے گئے تھے۔‘‘

Bangladesch | Rohingya-Flüchtlinge leben in Lagern in Bangladesch
روہنگیا بچوں کا مستقبل کیا ہے؟تصویر: DW

 روہنگیا برادری کے ایک اور رہنما سید اللہ نے کہا،'' ہم بس اپنے وطن کی طرف باعزت اور باوقار طریقے سے واپسی چاہتے ہیں۔‘‘ سید اللہ کا مزید کہنا تھا،''بدقسمتی سے، ہماری فریاد پر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ بین الاقوامی برادری کچھ نہیں کر رہی۔ یہاں ہم کیمپوں میں ترپال اور بانس کی پناہ گاہوں میں پڑے ہوئے ہیں اور چندے پر بمشکل زندہ ہیں۔‘‘

ریلیوں میں شریک بہت سے روہنگیا مسلمانوں نے 1982ء کے ایک قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کیا، جس کے تحت میانمار میں ان کی شہریت چھین لی گئی تھی اور تب سے انہیں بڑے پیمانے پر غیر ملکی کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

بنگلہ دیش: ایک لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو متنازع جزیرے پر منتقل کرنے کا فیصلہ

وطن واپسی کی متعدد کوششیں ناکام

روہنگیا مسلمانوں کی مہاجر یا پناہ گزین کیمپوں سے وطن واپسی کی متعدد کوششیں ناکام ہو چُکی ہیں۔ ان باشندوں نے تحفظ اور اپنے حقوق کی ضمانتوں کے بغیر وطن واپسی سے انکار بھی کر رکھا ہے۔ اس کمیٹی کے رہنماؤں کو شکایت ہے کہ  ان کی برادری کو خاردار تاروں سے گھرے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جہاں سکیورٹی کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ 2017 ء سے اس علاقے میں رونما ہونے والے تشدد کے متعدد واقعات میں اب تک کم از کم 100 افراد مارے جا چکے ہیں۔

Bangladesch Proteste der Rohingya zum 5. Jahrestag der Vetreibung aus Myanmar
25 اگست کو منعقد ہونے والی احتجاجی ریلیتصویر: Munir uz Zaman/AFP

 بہت سی ہلاکتوں کا الزام روہنگیا باغی گروپ کے ساتھ ساتھ منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں پر بھی لگایا جاتا ہے، جو کیمپوں میں موجود نوجوانوں کی آسانی سے بھرتی کرتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیشی پولیس کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ایک نوجوان روہنگیا کارکن نے کہا،''یہ روہنگیا کے لیے ایک جیل ہے۔ ان پانچ سالوں میں روہنگیا کی زندگی بدتر ہو گئی ہے۔‘‘

 اُس کا مزید کہنا تھا،''روہنگیا کی دکانوں کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ ہمیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت لینا پڑتی تھی۔ تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئے واقعات کی وجہ سے ہم خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

روہنگیا قتلِ عام: امریکا نے "نسل کشی" قرار دینے سے کیوں گریز کیا؟

جمعرات کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی طرف سے شائع ہونے والے پناہ گزینوں کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ روہنگیا کیمپوں کی صورتحال تیزی سے غیر صحت بخش ہوتی جا رہی ہے۔

ک م/ اا(اے ایف پی)