1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی کرنسی کی گرتی قدر، عالمی اقتصادیات کے متاثر ہونے کا خطرہ

عابد حسین17 دسمبر 2014

روسی کرنسی کی گرتی قدر سے روس کو درپیش مالیاتی بحران کے حوالے سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس بحران کے اثرات عالمی اقتصادیات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E5wj
تصویر: Alexander Nenenov/AFP/Getty Images

یورپی براعظم کی مجموعی اقتصادیات کو علیل خیال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب جاپان، چین اور لاطینی امریکا کے مالی حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اِس بنا پر ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ روسی کرنسی رُوبل کی گرتی قدر کا وائرس کسی نہ کسی طور پر جاپانی، چین اور لاطینی امریکی کی مُضمحل معیشت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایسے اندازہ بھی لگائے گئے ہیں کہ مُرجھائے ہوئے رُوبل کو اندرون ملک ماسکو حکومت نے شرح سُود میں اضافہ کر کے تقویت دینے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن خام تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں کمی کے رجحان اور یوکرائنی بحران کے حوالے سے امریکا اور مغربی اقوام کی پابندیوں نے روسی کرنسی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

گزشتہ چند روز کے دوران رُوبل کرنسی کی قدر میں دس فیصد کی کمی کو روس کی اقتصادی گاڑی کے پنکچر ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں کہ آیا روس اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی بروقت کر سکے گا یا نہیں۔ اِن کے مطابق اگر ایسا نہ ہوا تو روس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب جائیں گے۔ بعض مالیاتی امور کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئندہ مہینوں میں روس کا امریکا اور یورپی اقوام کے ساتھ تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے منگل 16 دسمبر کو روس پر مزید پابندیوں کی منظوری دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رُوبل کے زوال کے اثرات معاشی جھیل میں پھینکے پتھر کی طرح ہیں اور اِس کی لہریں جس جس براعظم تک پہنچیں گی، منفی رجحانات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

Symbolbild - russischer Rubel
گزشتہ چند روز کے دوران رُوبل کرنسی کی قدر میں دس فیصد کی کمی واقع ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/ITAR-TASS

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز پر روس کا شمار دنیا کی آٹھویں بڑی اقتصادیات کے طور پر کیا گیا تھا اور اِس کی بنیاد 2.1 ٹریلین ڈالر کا جی ڈی پی (GDP) تھا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران روسی کرنسی رُوبل کی قدر اتنی کم ہو گئی ہے کہ ایک رُوبل کی اوقات دو تین امریکی پینی جتنی رہ گئی ہے۔ رُوسی کرنسی میں گراوٹ کا جو عمل جاری ہے، اُس کے تحت ایک رُوبل نے ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی پچاس فیصد حیثیت کھو دی ہے۔ قدر کی اس کمی کے بعد روسی معیشت کا مجموعی 2.1 ٹریلین ڈالر کا حجم نصف ہو کر رہ گیا ہے۔ اِس طرح اب اِس کی پوزیشن آٹھویں مقام سے گر کر پندرہویں پوزیشن پر خیال کی جا رہی ہے جو انڈونیشیا یا میکسیکو کے برابر ہے۔

روس کے اقتصادی حکام پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ سن 2015 میں روسی معیشت پانچ فیصد سکڑ سکتی ہے۔ روس کی ایکسپورٹ کا حجم 324 بلین ڈالر ہے اور اِس کے بڑے ٹریڈ پارٹنرز میں چین، جرمنی، یوکرائن، بیلاروس اور جاپان شمار کیے جاتے ہیں۔ یوکرائنی بحران کے بعد اِن ملکوں میں روسی مصنوعات خاصی مہنگی ہو چکی ہیں۔ روس کی کرنسی سن 1998 میں بھی کریش کر چکی ہے اور تب اِسے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی مالی معاونت حاصل ہوئی تھی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو ایک بہت بڑے اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔