1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رمیش سنگھ اروڑہ پاکستانی تاریخ کا پہلا سکھ رکن اسمبلی

5 جون 2013

پاکستانی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان صوبائی اسمبلی کا رکن بنا ہے، سردار رمیش سنگھ اروڑا اقلیتوں کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18jdR
تصویر: Tanvir Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ نارووال میں مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر تو ہیں، ان کی مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کے ذریعے انتخابات سے ایک ماہ پہلے میاں نواز شریف سے ملاقات بھی ہوئی تھی لیکن انہوں نے صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست کا ٹکٹ لینے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی تھی۔ انہیں مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکٹ ملنے کا ٹی وی خبروں کے ذریعے اچانک پتا چلا تو یہ بات ان اور ان کے خاندان کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ رمیش سنگھ پچھلے دنوں حلف اٹھانے پنجاب اسمبلی آئے تو ارکان اسمبلی نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

نارووال کے علاقے کرتارپور کے رہائشی 38 سالہ سردار رمیش سنگھ ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے، پنجاب یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور آج کل اپنی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے نارووال کے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ رمیش سنگھ شادی شدہ ہیں اور وہ دو بیٹیوں کے باپ ہیں۔ وہ پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ نیشنل کمیشن فار مینارٹیز کے رکن بھی رہے ہیں۔

نارووال شہر سے سولہ کلومیٹر دور پاک بھارت سرحدکے نزدیک کرتار پور کے مقام پر سکھوں کا وہ معروف گوردوارہ موجود ہے، جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک نے وفات پائی تھی۔ سکھوں کی ثقافت اور اقدار کی حفاظت کے خواہشمند رمیش سنگھ نےآج کل اسی جگہ کو اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ 1947ء کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا جانے والے یہ گوردوارہ انیس سو ننانوے میں نواز شریف دور حکومت میں دوبارہ کھولا گیا تھا۔

BdT Sikh Pilger im Zug nach Pakistan
ہر سال ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں، تاہم انہیں ویزہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: AP

پاکستان بھر سے سکھ باقاعدگی کے ساتھ "متھا ٹیکنے" اس گوردوارے آتے ہیں، جبکہ بھارتی سکھ تین کلومیٹردور بھارتی علاقے میں کھڑے ہوکر اس گوردوارے کے درشن کرتے ہیں اور دور سے ہی عبادت کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ رمیش کی خواہش ہے کہ اس چند کلومیٹر پٹی کو پاک بھارت سکھوں کے لیے کھول دیا جائے تاکہ وہ بغیر ویزے کے یہاں آکر اپنی عبادت کرسکیں۔ ان کے مطابق اسی طرح پاک بھارت سرحد کے دوسری طرف ڈیڈھ کلومیٹرکے فاصلے پر گورداسپور کے علاقے میں موجود ڈیرہ بابا نانک کے گوردوارے کو بھی پاکستانی سکھوں کے لیے ویزے کے بغیر کھول دینا چاہیے۔ رمیش اس منصوبے کو پاک بھارت مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رمیش کو دکھ ہے کہ پاکستان میں سکھوں کی شادیوں کی سرکاری رجسٹریشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ گوردواروں میں درج کی جانے والی شادیوں کے سرٹیفیکیٹ بعض اوقات عدالتوں یا بیرون ملک تسلیم نہیں کیے جاتے۔ وہ پاکستان کے پہلے سکھ میرج ایکٹ کے مسودے کی تیاری کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ سردار رمیش سنگھ بین المذاہب مکالمے اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو قریب لانے اور ان کی مشترکہ اقدار کو اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ قانون توہین رسالت کے حامی ہیں لیکن اس کے منصفانہ عملدرآمد کے متمنی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں رمیش سنگھ نے بتایا کہ پشاور میں سکھوں کے تاوان کے لیے اغوا کے رجحان کوسختی سے روکنے اور وہاں سکھوں کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ رمیش سنگھ کسی بھی غیرمسلم خاتون کی مذہب کی تبدیلی کے آزادانہ فیصلے کے مخالف تو نہیں ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک نوجوان غیر مسلم لڑکی کا کسی بوڑھے سے شادی کے لیے اپنا مذہب تبدیل کر لینا ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

سردار رمیش سنگھ کو دکھ ہے کہ پاکستان میں منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کیے گئے کئی گوردواروں کی تعمیر میں ان کے اصلی تعمیراتی حسن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ اٹلی کی حکومت کے تعاون سے گوردواروں کے طرز تعمیر کو محفوط بنانے کے خواہاں ہیں۔

رمیش اقتدار کے پانچ سالوں کو اعزاز کم اور ذمہ داری زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے غیر مسلموں کو ہی نہیں بلکہ مسلمان شہریوں کو بھی بہتر میعار زندگی فراہم کرنے کے لیے بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے، " اگر بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہو سکیں تو خالی حقوق لے کر لوگ کیا کریں گے، ہمیں پاکستان کو خوشحال بنانا ہے، اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے کر پاکستان کا دنیا میں وقار بلند کرنا ہے"

ایک سوال کے جواب میں رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ دس مئی دو ہزار تیرہ(انتخابات سے ایک دن پہلے) کے وہ لمحات ان کے لیے بڑے یادگار تھے جب مسلم لیگی رہنما احسن اقبال اپنی انتخابی کامیابی کے لیے دعا کرانے کے لیے کرتار پور کے گوردوارے میں آئے تھے،" وہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنی فیملی کے ساتھ شکرانے کی دعا کرانے گوردوارے آئے تھے"،ان کے بقول ایسے کاموں سے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے اور پاکستان کا سافٹ امیج بھی اجاگر ہوتا ہےہ

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: شادی خان سیف