1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دھرنوں کے دو ماہ، کیا کھویا کیا پایا

شکور رحیم، اسلام آباد15 اکتوبر 2014

پاکستان میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے جاری حکومت مخالف احتجاج کو دو ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اب شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جاری ان جماعتوں کے دھرنوں میں پہلی سی رونق بھی نظر نہیں آتی۔

https://p.dw.com/p/1DW32
تصویر: Reuters

دھرنوں کا زور ختم ہوتا دیکھ کر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد پولیس کو گزشتہ دوماہ سے دارالحکومت کی مخلتف شاہراہوں پر رکھے کنٹینرز ہٹانے کا حکم بھی دیا ہے۔ بدھ 15 اکتوبر کو اسلام باد پولیس کی نگرانی میں ریڈ زون سمیت کئی علاقوں کی شاہراہوں سے کنٹینرز ہٹنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

عمران خان اور طاہر القادری نے احتجاجی دھرنے جاری رکھنے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن ان کی خود ان دھرنوں سے باہر مخلتف شہروں میں جلسوں سے خطاب کی حکمت عملی نے بظاہر دھرنوں پر میڈیا اور عوام کی توجہ قدرے کم کر دی ہے۔

اس ضمن میں عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی جلسے کے لیے اسلام آباد سے لاہور روانگی کے بعد دھرنوں کے شرکاء کی تعداد میں واضح کمی آئی۔

شاید اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے بدھ کے روز پنجاب کے ضلع جھنگ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ پانچ ہزار افراد کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے شرکاء اور انکی قیادت سیلاب زدگان کی حالت زار پر توجہ دے۔

اکتیس اگست اور یکم اکتوبر کو مظاہرین اور پولیس اہلکاروں میں تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پولیس افسران سمیت متعدد مظاہرین زخمی بھی ہو ئے
اکتیس اگست اور یکم اکتوبر کو مظاہرین اور پولیس اہلکاروں میں تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پولیس افسران سمیت متعدد مظاہرین زخمی بھی ہو ئےتصویر: Reuters

نواز شریف کا مزید کہنا تھا، ’’وہ آکر ان کی خدمت کریں۔ صرف دھرنوں میں نہ بیٹھے رہیں۔ آئیں یہاں آکر ان کی بھی خبر لیں۔ بات غریبوں کی کرنی اور بیٹھے رہنا اسلام آباد میں اپنے محل اور دھرنوں میں یہ بات جچتی نہیں۔‘‘

وزیر اعظم نے اپنے سیاسی حریف عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ نئے پاکستان سے پہلے نیا خیبرپختونخوا بنائیں: ’’چھکے چوکے مارنے والے اکثر باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔‘‘

دو ماہ سے جاری حکومت مخالف احتجاج میں اس وقت تشدد بھی دیکھنے میں آیا جب اکتیس اگست اور یکم اکتوبر کو مظاہرین اور پولیس اہلکاروں میں تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پولیس افسران سمیت متعدد مظاہرین زخمی بھی ہو ئے۔ اسی دوران مظاہرین نے کچھ دیر کے لیے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کر لیا تھا جسے بعد میں فوج کے ذریعے خالی کرایا گیا۔

مظاہرین کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ ہاؤس کا حفاطتی جنگلہ توڑ کر کئی دن تک اس کے سبزہ زار میں موجود رہی اور پھر سپریم کورٹ کی مداخلت پر اس احاطے کو خالی کیا گیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضٰی کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران ہماری ملکی سیاست اور اداروں کے نظام میں موجود خرابیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجموعی طور پر صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ملک کو نقصان پہنچا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’حکومت نے بھی کچھ کھویا ہے اور دھرنے والوں نے بھی کھویا ہے۔ مگر اس سے زیادہ جو کھویا ہے وہ ملک نے کھویا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ساٹھ دنوں میں جو کاروباری سرگرمیاں تھیں ان کا کیا ہوا؟ یا جس حد تک ملک کی بدنامی ہوئی ہے، مطلب یہاں پر چند ہزار لوگ آ کر پورے ملک کا نظام مفلوج کر سکتے ہیں یہ آپ نے باہر کی دنیا کو پیغام دیا ہے۔‘‘

تاہم حکومت مخالف دھرنوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس جدو جہد کے نتیجے میں لوگوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا ہے جوکہ ملک کے سیاسی کلچر میں مثبت تبدیلی کی بنیاد ہے۔