1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کا طویل ترین حمل، چھتیس برس بعد بھارتی خاتون کا آپریشن

مقبول ملک26 اگست 2014

بھارتی ڈاکٹروں نے ایک ایسی خاتون کا آپریشن کر کے اس کے جسم سے اس کے نامولود بچے کا جسمانی ڈھانچہ نکال دیا ہے، جو 36 برس قبل حاملہ ہوئی تھی لیکن رحم مادر سے باہر ہونے کے باعث بچہ دوران حمل ہی انتقال کر گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1D14s
تصویر: Fotolia/ ingenium-design.de

نئی دہلی سے ملنے والی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس خاتون کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں نے طبی حوالے سے اسے دنیا کا طویل ترین حملِ ناقص قرار دیا ہے۔ اس وقت اس خاتون کی عمر 60 برس ہے اور جب وہ حاملہ ہوئی تھی تو اس کی عمر صرف 24 برس تھی۔

طبی اصطلاح میں ایسے پیچیدہ واقعات کو ectopic pregnancy یا eccysis کہتے ہیں۔ اس سے مراد کسی خاتون کے جسم میں حمل کا اس طرح ٹھہر جانا ہوتا ہے کہ بچہ رحم مادر سے باہر ہو جو کئی طرح کی طبی پیچیدگیو‌ں کی وجہ بنتا ہے۔ ایسے واقعات میں عام طور پر بچے کی نشو ونما معمول کے مطابق نہیں ہوتی اور نتیجہ اکثر بچے کی موت کی صورت میں نکلتا ہے۔

Symbolbild Stammzellen
اس خاتون کے مزید میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے تو معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک ایسے بچے کی جسمانی باقیات ہڈیوں کے پورے ڈھانچے کی صورت میں موجود ہیںتصویر: AFP/Getty Images

مغربی بھارتی شہر ناگپور کے این کے پی سالوے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مرتضیٰ اختر نے اے ایف پی کو بتایا کہ 36 برس قبل حاملہ ہونے والی اس خاتون کا تعلق وسطی بھارت کے ایک غریب دیہی گھرانے سے ہے، جسے اپنے جسم میں پرورش پانے والے چند ماہ کے بچے یا foetus کے رحم مادر سے باہر ہونے کی وجہ سے حادثاتی اسقاط حمل یا miscarriage کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ خاتون آپریشن کروانے سے ڈرتی تھی اور عشروں تک مردہ foetus کا ڈھانچہ اس کے جسم میں ہی رہا۔

ڈاکٹر مرتضیٰ اختر کے مطابق یہ خاتون اپنے جسم میں معدے سے نیچے دائیں طرف شدید درد کی تکلیف کے ساتھ ان کے ہسپتال آئی تو ابتدائی معائنے کے بعد ڈاکٹروں کو اس کے پیٹ میں ایک طرف ایک ایسی سخت لیکن بہت بڑی رسولی سی محسوس ہوئی جسے انہوں نے سرطانی رسولی سمجھا۔

پھر اس خاتون کے مزید میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے تو معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک ایسے بچے کی جسمانی باقیات ہڈیوں کے پورے ڈھانچے کی صورت میں موجود ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک گولے کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ اس ’گولے‘ کے ارد گرد مختلف جسمانی نمکیات کی وجہ سے چونے کی ایک موٹی تہہ بھی بن چکی تھی۔ اس طرح اس خاتون کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ گزشتہ 36 برسوں سے اپنے پیٹ میں اپنے اس بچے کی لاش لیے پھرتی تھی، جو حمل ٹھہرنے کے بعد لازمی طور پر کئی مہینوں تک نشو و نما کے عمل سے گزرا ہو گا۔

پھر یہ بچہ foetus ہی کے طور پر اس لیے انتقال کر گیا تھا کہ اپنی جگہ کے حوالے سے ایسا حملِ ناقص اول تو کروڑوں میں سے ایک آدھ واقعے میں ہی دیکھنے میں آتا ہے اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو نتیجہ جلد یا بدیر حادثاتی اسقاط حمل کی صورت میں نکلتا ہے۔ طبی ماہرین eccysis کے اختتام پر زندہ اور صحت مند بچے کی پیدائش کو تقریباﹰ ناممکن خیال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مرتضیٰ اختر نے بتایا، ’’کوئی 60 سالہ خاتون، جو 36 برس تک اپنا نامولود بچہ پیٹ میں لیے زندہ رہے، یہ طبی تاریخ میں حمل کا ایسا طویل ترین واقعہ ہے، جو ہم نے پہلے کبھی دیکھا یا سنا نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ جس foetus کو آپریشن کے ذریعے نکالا گیا، وہ اس خاتون کے جسم میں رحم، بڑی آنت اور مثانے کے درمیان موجود تھا۔

اے ایف پی کے مطابق اس واقعے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ اس سے قبل دنیا میں طویل ترین حملِ ناقص کا واقعہ کہاں پیش آیا تھا اور اس کا عرصہ کتنا رہا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ اس سے قبل کسی خاتون میں ectopic pregnancy کا طویل ترین واقعہ بیلجیم میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس کی مدت 18 سال رہی تھی۔