1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے شدت پسندوں پر امریکا کے مزید حملے

ندیم گِل9 اگست 2014

امریکی فورسز نے عراق کے شمالی علاقے اربیل میں اسلام پسند جنگجوؤں کے خلاف مزید فضائی حملے کیے ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق اس دوران شدت پسندوں کا ایک قافلہ تباہ ہو گیا جبکہ مارٹر حملے کرنے والی ایک ٹیم بھی ماری گئی۔

https://p.dw.com/p/1Crio
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق جمعے کو عالمی وقت کے مطابق سہ پہر دو بجے امریکی ڈرون طیاروں نے مارٹر حملوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک ہدف کو نشانہ بنایا جس میں شدت پسندوں کے گروہ کے کئی ارکان مارے گئے۔ اس کے ایک گھنٹے بعد امریکی فائٹر طیاروں نے دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے سات گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلے کو تباہ کر دیا۔ اس حملے میں آٹھ لیزر گائیڈڈ بم استعمال کیے گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کِربی نے بتایا: ’’امریکی فوج نے آج بھی (جمعے کو) اربیل کے قریب آئی ایس آئی ایل کے اہداف کو بدستور نشانہ بنایا اور اس شہر کے دفاع کے لیے دو اضافی فضائی حملے کیے جہاں امریکی اہلکار عراقی حکومت کی معاونت کر رہے ہیں۔‘‘

امریکی صدر باراک اوباما نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کو عراق کے کرد علاقے کے دارالحکومت پر حملے سے روکنے کے لیے فضائی کارروائیوں کی منظوری دے دی ہے۔ ان حملوں کا مقصد کوہ سنجار کا محاصرہ توڑنا بھی ہے۔ وہاں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے یزیدی مذہبی اقلیت کے ہزاروں افراد کا محاصرہ کر رکھا ہے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

Irak Christen Jesiden aud dem Flucht
عراق کی مذہبی اقلیتیں داعش کے نشانے پر ہیںتصویر: picture alliance/AA

اوباما کے اعلان کے بعد جمعرات کی شب ایک امریکی فائٹر طیارے نے IS کی ایک پوزیشن کو نشانہ بنایا تھا۔ اس سے کچھ دیر قبل امریکی فوجی طیاروں نے کوہ سنجار پر محصور یزیدی کمیونٹی کے لیے پانی اور خوراک پھینکی۔ جمعے کو مزید حملوں میں ڈرون طیارے بھی استعمال کیے گئے۔

جان کِربی کا مزید کہنا تھا کہ ڈرون طیارے سے دہشت گردوں کی ایک پوزیشن کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے وہ مارٹر حملے کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’جب آئی ایس آئی ایل کے فائٹر وہاں لوٹے تو ان دہشت گردوں پر پھر سے حملہ کر کے ان کا صفایا کر دیا گیا۔‘‘

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ صدر باراک اوباما نے ان حملوں کی منظوری ٹھوس قانونی بنیادوں پر دی ہے اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے بھی اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہیرف کا کہنا ہے: ’’عراقی حکومت اور مختلف علاقوں، مختلف جماعتوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے عراق کے رہنماؤں نے ہمیں دعوت دی اور دراصل ہم سے مدد مانگی۔ لہٰذا یہی وہ اصول ہے جو ایسی صورتِ حال میں لاگو ہوتا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید