1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین گھروں سے باہر نہ نکلیں، ورنہ تیزاب پھینک دیا جائے گا‘

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ23 جولائی 2014

گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران بلوچستان میں چھ خواتین کو ان کے چہروں پر تیزاب پھینک کر شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ کئی دیگر علاقوں میں ایسے پمفلٹ بھی پھینکے گئے ہیں جن میں خواتین کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی دھمکی دی گئی ہے-

https://p.dw.com/p/1ChDz
تصویر: A. Ghani Kakar

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں خواتین پر شدت پسندوں کے حالیہ حملوں کے بعد دارالحکومت کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں حفاظتی انتظامات کو غیر معمولی طور پر سخت کرتے ہوئے شہری علاقوں میں قائم کاروباری مراکز اوردیگر حساس مقامات پر سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

دارالحکومت کوئٹہ اور صوبے کے شمال مشرقی علاقے مستونگ میں شدت پسندوں نے خواتین کو ان کے چہروں پر تیزاب پھینک کر اس وقت نشانہ بنایا جب وہ مقامی شاپنگ سینٹروں میں عید کے لئے خریداری میں مصروف تھیں۔ پولیس حکام کے مطابق ان حملوں میں ملوث ملزمان کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے اور نہ ہی اب تک کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

Säureangriffe auf Frauen in Balochistan
شدت پسندوں نے خواتین کو ان کے چہروں پر تیزاب پھینک کر اس وقت نشانہ بنایا جب وہ مقامی شاپنگ سینٹروں میں عید کے لئے خریداری میں مصروف تھیںتصویر: A. Ghani Kakar

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء اور رکن قومی اسمبلی مولا نا امیر زمان کے بقول بلوچستان میں پرتشدد کارروائیوں میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں جو کہ یہاں کے امن کو اپنے مقاصد کے لئے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھ، ’’بلوچستان میں ایک سازش کے تحت انتہا پسندی پھیلائی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں کئی غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ انڈیا، ایران،اسرائیل، سعودی عرب اور خاد کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ یہاں امن ہو اور یہاں کے حالات سدھر جائیں۔ وہ لوگ یہاں اپنے مقاصد کے لئے بد امنی پھیلانا چاہتے ہیں۔‘‘

بلوچستان نیشنل پار ٹی کے رہنما منیر شاہوانی کے بقول خواتین پر تیزاب پھینکنے والے گروپوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی مگر ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، ’’ملک میں جب بھی کوئی سنگین واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس پر ازخود نوٹس لے لیتی ہے اور انتظامیہ ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کرتی ہے۔ مگر بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے ان حملوں پر اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے اور نہ کوئی ملزم گرفتار ہوا ہے۔ ہماری خواتین ان حالات میں گھروں سے کیسے باہر نکلیں گی۔ انہیں تحفظ کون دے گا۔ قبائلی پس منظر میں یہ ہمارے لئے عزت کا مسئلہ ہے۔‘‘

Basar in Quetta
حفاظتی انتظامات کو غیر معمولی طور پر سخت کرتے ہوئے شہری علاقوں میں قائم کاروباری مراکز اوردیگر حساس مقامات پر سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہےتصویر: A. Ghani Kakar

لیاقت کالج اف میڈیسن ایند ڈینٹسٹری کراچی میں زیر تعلیم بلوچستان کی میڈیکل کی ایک طالبہ عابدہ علی کو بھی اس صورتحال پر شدید تشیوش لاحق ہے، ’’شدت پسند خواتین پر خیبر پختونخوا اور دیگر قبائلی علاقوں کی کی طرح ہمارے حقوق کے تمام دروازے بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لئے اب گھرو ں سے باہر نکلنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے اگر یہ صورتحال بر قرار رہی تو خواتین کے مستقبل کا کیا ہو گا؟ ان سے تو تمام حقوق چھین لئے جائیں گے۔ کیا حکومت صرف فرضی دعوؤں سے عوام کو اسی طرح بے وقوف بناتی ر ہے گی ؟‘‘

نیشنل پارٹی کی رہنماء سمیرا بلوچ کا اس حوالے سے موقف کچھ یوں تھا، ’’ہمارے ہاں قبائلیت کا راج ہے۔ محدود سوچ کے حامل لوگ خواتین کو گھروں تک ہی محدود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ خواتین گھروں سے باہر نکلیں اور اپنی کسی ضرورت کے لئے کوئی خریداری کریں۔ شدت پسند انہیں اپنے مقاصد کے لئے محدود کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ترقی نہ کر سکیں۔‘‘

یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات اور دالبندین کے علاقوں میں بھی خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر اب تک ان واقعات میں ملوث کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔