1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاتون صحافی شاہینہ شاہین کا قتل، شوہر پر الزام

6 ستمبر 2020

بلوچستان کے ضلع تربت میں گزشتہ روز قتل ہونے والی مقامی صحافی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن شاہینہ شاہین کو ان کے آبائی قبرستان میں آج سپرد خاک کردیا گیا۔ اہل خانہ کو شاہین کے قتل کا شبہ مبینہ طور پر ان کے شوہر پر ہے۔

https://p.dw.com/p/3i4jM
Journalistin Shaheena Shaheen in Tibet erschossen
تصویر: DW/A. G. Kakar

اس قتل کا مقدمہ پولیس تھانہ سٹی تربت میں ان کے شوہر نوابزادہ محراب گچکی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ مقتولہ کی نماز جنازہ میں سیاسی اور سماجی کارکنوں سمیت زندگی کے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

مقتولہ شاہینہ، بلوچی رسالہ دجگہار کی ایڈیٹراورکوئٹہ میں سرکاری ٹیلی وژن پر بلوچی زبان کے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی تھی۔  شاہینہ شاہین نے پانچ ماہ قبل کراچی کی مقامی عدالت میں پسند کی شادی کی تھی۔

مزید پڑھیے: سویڈن: بلوچ صحافی کی موت کی تحقیقات ختم، قتل کا امکان خارج

مقتولہ کے ماموں امجد رحیم کے بقول شاہینہ کے قتل کی اطلاع انہیں گھر میں دوپہر پونے ایک بجے کے قریب موصول ہوئی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں گھر پر موجود تھا جب ایک جاننے والے نے موبائل پر اطلاع دی کہ میری بھانجی شاہینہ فائرنگ سے شدید زخمی ہوئی ہے۔ میں مقامی ٹیچنگ ہسپتال پہنچا تو شاہینہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ چکی تھی۔ اس قتل میں ان کا شوہر مبینہ طور پر ملوث ہے جسے ہم نے ایف آئی آر میں بھی نامزد کردیا ہے ۔‘‘

Journalisten Shaheena Shaheen in Tibet erschossen
تصویر: DW/A. G. Kakar

امجد رحیم نے مزید بتایا کہ مقتولہ کو تربت پی ٹی سی ایل کالونی میں واقع ایک رہائشی کوارٹر میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ''واقعے کے وقت مقتولہ کی ماں کوئٹہ میں موجود تھی جو کہ بعد میں یہاں پہنچی۔ ہمیں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ملزم محراب ہی نے فائرنگ کے بعد شاہینہ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا تھا۔ ملزم واقعے کے بعد سے تاحال مفرور ہے ۔ قتل کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک انتہائی غیر متوقع واقعہ ہے۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ شاہینہ کو اس قدر بے دردی سے کیوں قتل کیا گیا؟‘‘

امجد رحیم کے مطابق شاہینہ پرفائرنگ کے بعد ملزم نے واقعے کو خودکشی قرار دینے کی بھی کوشش کی تھی ۔ ان کے بقول، ''شاہینہ کے قتل کے بعد ملزم نے اپنی ساس سے فون پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی نے خود کو گولی مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: حیات بلوچ کی ماں کے بے بس آنسو

شاہنیہ کے قتل کے حوالے سے تربت پولیس نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں مقتولہ کے شوہر کو ایف آئی آر میں نامزد کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ تربت میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار جلیل بلوچ کہتے ہیں کہ قتل کے اس واقعے کے بعد مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا  کہ حقائق سامنے لائے بغیر کسی کو مورد الزام ٹھہرانا قبل از وقت ہے تاہم مقتولہ کے شوہر کی گرفتاری کے بعد یہ صورتحال یقیناﹰ واضح ہوجائے گی۔

Pakistan Protest in Unterstützung für die Zeitung Dawn News
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

شاہینہ شاہین کے قتل پر مختلف صحافتی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سخت ردعمل ظاہرکیا ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر مختلف صارفین نے شاہینہ کے قتل کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مزید پڑھیے: میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے اغوا پر کیوں نہیں بولا؟

پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یوجے کے صدر شہزادہ زوالفقار کہتے ہیں کہ شاہینہ بلوچ اینکرپرسن ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے بھی بہت فعال کردار ادا کر رہی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس انتہائی افسوسناک واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف جلد از جلد کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘

شہزادہ زوالفقار نے بتایا کہ بلوچستان میں صحافیوں کو اپنا پیشہ ورانہ کام کرنے کے دوران درپیش خطرات پر پی ایف یو جے کو بہت تشویش ہے۔ ان کے بقول، ''آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو دوراندیشی پر مبنی اقدامات کرنے ہونگے تاکہ صحافی خود کو اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے محفوظ تصور کرسکیں ۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں