1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کے علاوہ اعلیٰ یورپی اہلکاروں کی بھی جاسوسی کی گئی

عاطف بلوچ21 دسمبر 2013

امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے جرمن حکومتی اداروں اور وزراء کے ٹیلی فون لائنز کی نگرانی کی۔ نئے انکشافات کے مطابق لندن اور واشنگٹن نے اعلیٰ یورپی اہلکاروں کی بھی جاسوسی کی۔

https://p.dw.com/p/1AeUS
تصویر: imago/Roland Mühlanger

جمعے کے دن سامنے آنے والے تازہ انکشافات کے مطابق یو ایس نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) اور برٹش جنرل کمیونیکشنز ہیڈ کوارٹرز (جی سی ایچ کیو) نے مبینہ طور پر برسلز اور برلن کی جاسوسی کی تھی۔ سابق امریکی کانٹریکٹر ایڈروڈ سنوڈن کی طرف سے عام کی جانے والی خفیہ معلومات کے مطابق البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ جاسوسی کا یہ عمل کتنا طویل اور کتنی باریک بینی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یہ تازہ معلومات جمعے کے دن جرمن نیوز میگزین اشپیگل کے علاوہ نیو یارک ٹائمز اور برطانوی روزنامے گارڈین میں بھی شائع کی گئی ہیں۔

تازہ انکشافات کے مطابق لندن اور واشنگٹن نے جاسوسی کے اس عمل کے دوران جرمن حکومتی ڈیٹا بیس کے علاوہ متعدد وزارتوں کو بھی نشانہ بنایا۔ بتایا گیا ہے کہ جن ٹیلی فون نمبرز کی جاسوسی کی گئی تھی، ان میں روانڈا میں جرمن سفارتخانے کا فون بھی شامل ہے۔ اس پیشرفت پر جرمن حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

Edward Snowden Ehrenurkunde Whistleblower-Preis 2013 BILDAUSSCHNITT
سابق امریکی کانٹریکٹر ایڈروڈ سنوڈنتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپی کمیشن کے نائب صدر خوآکِن المونیا کی بھی نگرانی کی گئی۔ کمیشن نے ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد کہا ہے کہ اگر ایسی خبریں سچ ثابت ہو جاتی ہیں کہ اس کے اعلیٰ اہلکاروں کی جاسوسی کی گئی ہے تو یہ ’ایک ناقابل قبول‘ عمل ہو گا۔ یورپی کمیشن کے ایک ترجمان نے کہا، ’’یہ کوئی ایسا رویہ نہیں ہے، جس کی ہم اپنے اسٹریٹیجک ساتھیوں سے توقع کرتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر یہ خبریں درست ہیں تو ہم اس کی کڑے الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

جمعے کے دن منظر عام پر آنے والے ان تازہ انکشافات کے مطابق این ایس اے اور جی سی ایچ کیو نے مبینہ طور پر فرانس کی متعدد کمپنیوں کی جاسوسی بھی کی ہے۔ ان کمپنیوں میں فرانسیسی آئل کمپنی ’ٹوٹل‘ اور میڈیکل چیرٹی Medecins du Monde بھی شامل ہیں۔

ادھر واشنگٹن میں این ایس اے کے ایک ترجمان نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کا ادارہ امریکی بزنس میں بہتری پیدا کرنے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔ بیان کے مطابق غیر ممالک میں جاسوسی سے حاصل ہونے والی معلومات کا مقصد یہ نہیں کہ غیر ملکی کمپنیوں کے تجارتی راز چرائے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خفیہ معلومات امریکی کمپنیوں کو فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

اس سکینڈل کے تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما نے تجویز کیا ہے کہ این ایس اے کے کام کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جمعے کے دن وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ دنوں میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے کام میں بہتری کے لیے صدارتی پینل کی طرف سے تجویز کردہ رپورٹ کا جائزہ لیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید