1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی طرف سے کرد فورسز کو بھاری تعداد میں ہتھیار مہیا

عاطف توقیر1 ستمبر 2014

جرمن حکومت شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف برسرپیکار کرد فورسز کے لیے بھاری مقدار میں اسلحہ اور ہتھیار فراہم کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1D4nH
تصویر: Getty Images

ہتھیاروں کی اس فراہمی کا مقصد اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی کو روکنا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کو بے شمار خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

اتوار کے روز جرمن وزیردفاع اُرسلا فان ڈیئر لاین نے واضح کیا کہ برلن حکومت اس سلسلے میں فیصلہ کر چکی ہے اور اب اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے والے چار ہزار کرد سپاہیوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا۔ ان ہتھیاروں میں ٹینک شکن راکٹ، ہزاروں رائفلیں، دستی بم، باردوی سرنگوں کی صفائی کے آلات، رات میں دیکھنے کی صلاحیت کے حامل چشمے، گشتی کچن اور ٹینٹ شامل ہیں۔ فان ڈیئر لاین نے کہا، ’چار ہزار سپاہیوں کے لیے یہ ہتھیار کافی ہوں گے۔‘

واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے یہ پالیسی اختیار کی تھی کہ وہ مسلح تنازعات میں اپنے ہتھیار نہیں بھیجے گا۔ تاہم چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا ہے کہ شمالی عراق میں اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے تشدد کی بنا پر ’’غیرمعمولی‘‘ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

انگیلا میرکل کی اپنی کابینہ سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے حکومتی بیان کے مطابق، ’اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی سے لاکھوں افراد کی زندگیوں، عراقی کی سلامتی اور خطے کے استحکام کو خطرہ ہے۔۔۔ بڑی تعداد میں غیرملکی عسکریت پسندوں کی شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مل کر لڑائی کرنے سے جرمنی اور یورپ کی سلامتی کے لیے بھی خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔‘

Angela Merkel und Barack Obama 2.5.2014
امریکا اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی مہم جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: Getty Images

میرکل کی اپنے وزراء کے ساتھ کرد فورسز کو ہتھیار مہیا کرنے کے موضوع پر گفتگو کے بعد جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’یہ ہماری انسانی بنیادوں پر ذمہ داری اور ہماری سلامتی کے مفاد میں ہے کہ متاثرین کی مدد کریں اور اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی روکیں۔‘

دیگر یورپی ممالک کی طرح جرمنی کو بھی یہ خدشات لاحق ہیں کہ اس کے ایسے شہری جو شام اور عراق میں شدت پسند گروہوں کے ساتھ مل کر لڑائی میں مصروف ہیں، واپس لوٹے تو ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔

جرمن خفیہ اداروں کے مطابق چار سو جرمن باشندے شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو چکے ہیں۔ مقامی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں، جن کہ بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ مہنیوں میں کم از کم پانچ جرمن باشندوں نے خودکش بھی حملے کیے۔

اس سے قبل عراقی کردوں کے لیے جرمنی نے انسانی بنیادوں پر امداد ارسال کی تھی، جس میں دفاعی سامان مثلاﹰ ہیلمٹ اور باڈی آرمر شامل تھے، تاہم ہتھیار نہیں بھیجے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جرمنی نے اربیل شہر میں اپنے قونصل خانے کی حفاظت کے لیے چھ فوجی بھی تعینات کیے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکا ایک بین الاقوامی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ شدت پسند گروہ عراق اور شام کے ایک ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکا ہے اور مغرب کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکا ہے۔ تاہم عوامی جائزوں کے مطابق زیادہ تر جرمن شہری اس تنازعے میں شامل ہونے کے حامی نہیں۔ میرکل پہلے ہی واضح کر چکی ہیں کہ برلن حکومت عراق میں اپنے فوجی نہیں بھیجے گی۔