1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور امریکا کے تعلقات ’سرد تنازعہ‘ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں

عدنان اسحاق10 جولائی 2014

ابھی دو ہفتے قبل ہی جرمنی اور امریکا نے جاسوسی کے واقعات سے پیدا ہونے والے تناؤ کو ختم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کی تھیں۔ تاہم جاسوسی کے نئے الزامات سے اس خلیج کو کم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CZS2
تصویر: imago

جرمنی کا ایک سفارتی وفد آج کل امریکا کے دورے پر ہے۔ تاہم جب جرمن اراکین نے جاسوسی کے نئے واقعات پر واشنگٹن حکام سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو وائٹ ہاؤس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جرمن پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین نوربرٹ رؤٹنگ نے واشنگٹن میں کانگریس اور سلامتی کے اداروں کے نمائندوں سے باتیں کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا، ’’ہم پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے والے امریکی اس بارے میں بہت کم ہی جانتے ہیں‘‘۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ جاسوسی کے تازہ واقعات کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ جرمنی میں امریکی خفیہ اداروں کی سرگرمیاں بین البراعظمی تعلقات میں ایک ’سرد تنازعہ‘ کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔

NSA Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی اور امریکا نے27 جون سے ’سائبر ڈائیلاگ‘ کے نام سے بات چیت کے سلسلے کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد ڈیٹا سکیورٹی اور خفیہ نگرانی کے معاملے پر پائے جانے والے اختلاف رائے کو دور کرنا ہے۔

امریکا میں موجود جرمن وفد میں شامل نیلز آنن نے اس بارے میں کہا کہ نئے الزامات کے منظر عام پر آنے سے اِن معاملات کوسلجھانے کے اچھے ارادے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول ’’پہلے قومی سلامتی کے امریکی ادارے این ایس اے کی جانب سے نگرانی، پھر چانسلر میرکل کے ٹیلیفون کالز سننا اور اب جاسوسی کی یہ نئے واقعات‘‘۔

جرمن حکام نے کل بدھ کے روز ہی ایک ہفتے کے دوران ممنکہ طور پر جاسوسی کے ایک اور واقعے کی تصدیق کی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن فوج کے ایک ملازم سے اس بارے میں پوچھ گچھ جاری ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے فوج کے خفیہ دستاویزات امریکا کو فراہم کیے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے ہی جرمن خفیہ ادارے ’بی این ڈی‘ کے ایک 31 سالہ اہلکار کو امریکی خفیہ ادارے کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ شک ہے کہ جرمن اہلکار نے ایک امریکی خفیہ ادارے کے کہنے پر این ایس اے کی جانب سے نگرانی کے واقعات کی چھان بین کے لیے قائم جرمن پارلیمانی کمیٹی کی جاسوسی کی ہے۔

ان واقعات کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جوش ایرنسٹ نے کہا کہ وہ ان الزامات کو نہ تو مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ تاہم اس دوران انہوں نے یہ ضرور کہا کہ خفیہ نگرانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے لیے جرمن اور امریکی نمائندوں کے مابین سرکاری سطح پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔