1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن جزیرے ہیلگولینڈ کی پون چکیاں

3 اکتوبر 2012

جرمنی کے شمال میں سمندر کے بیچوں بیچ واقع جزیرے ہیلگولینڈ کی آبادی صرف پندرہ سو نفوس پر مشتمل ہے۔ آس پاس تعمیر کیے جانے والے تین وِنڈ پارکس کی وجہ سے اس جزیرے کی مقبولیت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/16JFu
تصویر: picture-alliance/dpa

ایک زمانہ تھا کہ ہر روز سیاحوں سے بھری ہوئی کشتیاں سرخ چٹانوں اور ریتلے ساحلوں والے اس جزیرے پر لنگر انداز ہوتی تھیں۔ ایک دن کے لیے ہیلگولینڈ پہنچنے والے ان لوگوں کے لیے سب سے بڑی کشش یہاں ڈیوٹی فری شاپنگ ہوا کرتی تھی۔

اب اس جزیرے کے ساحلوں سے بیس تا تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تین وِنڈ پارکس تعمیر کیے جا رہے ہیں، جن کی وجہ سے اس جزیرے کی بندرگاہ ان پارکوں کی تعمیر میں مصروف اور بعد ازاں ان کے انتظام پر مامور ورکرز کے لیے ایک طرح کے سروس سینٹر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

Jörg Singer ہیلگولینڈ کے میئر ہیں، جو بتاتے ہیں کہ اُنہیں کمپنیوں کو وِنڈ پارکس کی تعمیر کے لیے ہیلگولینڈ لانے کے سلسلے میں خاصی محنت کرنا پڑی ہے۔ اُنہیں امید ہے کہ جرمنی کا ماحول دوست توانائیوں کا نیا پروگرام اس جزیرے کے لیے معاشی استحکام کا باعث بنے گا:’’سب سے پہلے چھوٹے انجن والی سروس کشتیاں لائی جا رہی ہیں، جن میں بارہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ پھر یہاں اُن وِنڈ پارکس کی تعمیر کے لیے سروس اسٹیشن قائم ہوں گے، جو اگلے دو سے لے کر تین سال تک یہاں تعمیر کیے جائیں گے اور اگلے بیس یا تیس برسوں تک توانائی فراہم کریں گے۔ ہر وِنڈ پارک کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے تیس تا پچاس افراد کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ جب کوئی سمندری طوفان آئے گا تو ان لوگوں کو پتہ ہو گا کہ وہ کھلے سمندر میں کسی پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ ٹھوس چٹانوں سے بنے ایک خشک جزیرے پر ہیں، جہاں اُن کے لیے گرما گرم کھانا بھی ہے اور ضرورت پڑنے پر سونے کے لیے بستر بھی۔‘‘

Jörg Singer، ہیلگولینڈ کے میئر
Jörg Singer، ہیلگولینڈ کے میئرتصویر: DW/I.Quaile-Kersken

جرمنی کا ماحول دوست توانائیوں کا نیا پروگرام یہ ہے کہ سن 2020ء تک یہ ملک اپنی ضرورت کی 35 فیصد اور سن 2050ء تک 80 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرے گا اور یوں رفتہ رفتہ اپنے ایٹمی بجلی گھر مکمل طور پر بند کر دے گا۔

ان وِنڈ پارکس کی وجہ سے آج کل ہیلگو لینڈ میں بڑی تیزی سے نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ جزیرے کے میئر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس عبوری تعمیراتی مرحلے کے دوران جزیرے پر شور بہت بڑھ جائے گا لیکن وہ کہتے ہیں کہ طویل المدتی بنیادوں پر ہیلگولینڈ کو فائدہ ہی ہو گا اور یہ جزیرہ آئندہ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے گا۔

سرخ چٹانوں اور ریتلے ساحلوں کی وجہ سے شہرت رکھنے والا جرمن جزیرہ ہیلگولینڈ
سرخ چٹانوں اور ریتلے ساحلوں کی وجہ سے شہرت رکھنے والا جرمن جزیرہ ہیلگولینڈتصویر: DW/I.Quaile-Kersken

تاہم جزیرے ہی پر پلی بڑھی اور اب ہر سال کچھ دن سکون کے ساتھ گزارنے کے لیے جزیرے پر لوٹنے والی ایک خاتون Claire Menzig ان ساری تعمیراتی سرگرمیوں سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’صرف پون چکیاں لگانے کے لیے آپ خوابوں کے اس جزیرے کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ لوگ اپنا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا اس طرح کے کسی جزیرے کے لیے اچھے مستقبل کا یہی ایک حل رہ گیا ہے؟ مَیں اس لیے ہیلگولینڈ آتی ہوں کہ میں قدرتی ماحول کو پسند کرتی ہوں اور یہاں ہر چیز ویسے کی ویسی ہے، جیسے کبھی ہوا کرتی تھی۔ خوبصورت ریتلے ٹیلے، سمندری جانور اور رنگا رنگ پرندے۔ آج کل ایسی چیزیں بھلا ملتی کہاں ہیں؟‘‘

کچھ یہی نقطہء نظر ہیلگولینڈ بائیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ کا بھی ہے۔ یہ ادارہ بڑی گہری نظر سے اس جزیرے پر عمل میں آنے والی تبدیلیوں، یہاں کے قدرتی ماحول اور سمندری حیات پر اِس کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔

I.Quaile/aa/mm