1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جامعہ مسجد یا کلیسا، قرطبہ پھر تنازعے کی زد میں

مقبول ملک6 فروری 2015

اسپین کے شہر قرطبہ کو فخر ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے وہاں مل جل کر پرامن طور پر رہتے آئے ہیں۔ لیکن مقامی باشندوں کے مابین وہاں اب دوبارہ اُس کلیسا کے بارے میں تنازعہ پیدا ہو گیا ہے جو کبھی ایک شاندار مسجد تھا۔

https://p.dw.com/p/1EXRa
تصویر: Fotolia/Mariusz Prusaczyk

جنوبی اسپین کے علاقے اندلس میں قرطبہ نام کے شہر کے تاریخی مرکزی حصے میں صدیوں قبل قائم کی گئی یہ عبادت گاہ نہ صرف اسلامی فن تعمیرات کا ایک شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کا شمار یورپ میں تاریخی اہمیت کی حامل مشہور ترین مسلم ثقافتی باقیات میں بھی ہوتا ہے۔

قرطبہ کی یہ قدیم عبادت گاہ، جو اسلامی دنیا میں ’قرطبہ کی جامع مسجد‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث قرار دیے جانے والے مقامات کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اسپین پر حکمران مسلمانوں کی طرف سے تعمیر کے بعد اس عبادت گاہ کے ڈھانچے میں بعد ازاں مسیحی حکمرانوں کی طرف سے کچھ اضافے بھی کیے گئے تھے اور اب ایک بار پھر متنازعہ ہو جانے والی یہ عمارت قرطبہ شہر میں ماضی میں یہودیوں کی آبادی والے قدیم علاقے سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔

قرطبہ کے مقامی شہری اس عمارت کو ’مسجد کلیسا‘ کہتے ہیں جبکہ ناقدین کا الزام ہے کہ اس عمارت کے موجودہ منتظم ادارے کی طرف سے، جس کا تعلق مسیحیوں کے رومن کیتھولک کلیسا یا ویٹی کن سے ہے، اس عبادت گاہ کے اسلامی ماضی کو چھپانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

Spanien - Mezquita in Cordoba
تصویر: picture-alliance/dpa

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ عمارت ایک انتہائی پرکشش سیاحتی مقام بھی ہے اور سیاحوں کو وہاں جو داخلہ ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں اور جو معلوماتی پمفلٹ مہیا کیے جاتے ہیں، ان میں اس عمارت کو ایک کلیسا قرار دیا گیا ہے اور اس کا ایک مسجد کے طور پر دیا جانے والا سرسری سا حوالہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

قرطبہ میں اب ایک ایسی مہم شروع ہو چکی ہے، جس کا نام ہے، ’مسجد کلیسا، سب کی میراث‘۔ اس مہم کے ترجمان میگُوئیل سانتیاگو کا کہنا ہے کہ یہ ’مسجد کلیسا شہر کے ثقافتی دل کی حیثیت رکھتی ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کے حامل ایک تاریخی مقام کے طور پر ناقابل بیان حیثیت کی مالک بھی ہے‘۔

میگُوئیل سانتیاگو کا کہنا ہے، ’’اس تاریخی عبادت گاہ کا نام بدلنا نہ صرف قرطبہ کے سیاحتی کاروباری مفادات کے عین منافی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بری بات تو یہ ہے کہ یہ اقدام اس تاریخی اور یکتا نوعیت کی حامل عبادت گاہ کی فنی روح اور علامتی حیثیت کے بھی خلاف ہے۔‘‘

قرطبہ میں کلیسائے روم کی نمائندہ مقامی کیتھیڈرل کونسل کے ترجمان خوزے خوآن خِیمینیز کا کہنا ہے کہ کلیسائے روم 1236ء میں اس دور سے اس ’کلیسا‘ کا قانونی مالک ہے جب مسیحی بادشاہ فرڈینینڈ سوئم نے اسے قبضے کے بعد مسیحی مذہبی عبادت گاہ قرار دیا تھا۔

مؤرخین کے مطابق قرطبہ میں اس تاریخی مقام کے کلیسا قرار دیے جانے سے پہلے جب اس شہر پر مسلمانوں کے خاندان امیّہ کی حکمرانی تھی، تب وہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کے بارے میں بھی کلیسائے روم کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ پر قائم کی گئی تھی، جہاں پہلے سے آٹھویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ ایک گرجا گھر موجود تھا۔

Karfreitagsprozession in der Moschee von Cordoba, Spanien
قرطبہ کی اس قدیم عبادت گاہ میں اب سالہا سال سے کلیسا کی طرف سے گڈ فرائیڈے کے موقع پر صلیبی جلوسوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہےتصویر: AP

مسیحی بادشاہ فرڈینینڈ نے اس مسجد کو 13 ویں صدی میں اس وقت ایک کلیسا میں تبدیل کر دیا تھا جب اس نے قرطبہ دوبارہ فتح کیا تھا۔ پھر کئی صدیوں بعد ایسا 1998ء میں ہوا کہ اس دور کی قدامت پسند ہسپانوی حکومت نے کلیسائے روم کو وہ تمام عبادت گاہیں اپنے نام رجسٹر کروانے کی اجازت دے دی جو اس کے قبضے میں تھیں۔ اس دوران اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی گئی کہ آیا کلیسا کے پاس ایسی تمام عبادت گاہوں کی ملکیتی دستاویزات بھی موجود ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر اہم پیش رفت 2006ء میں دیکھنے میں آئی جب قرطبہ کے بشپ نے اس کلیسا کو محض 30 یورو کی علامتی قیمت کی ادائیگی کے بعد چرچ کی جائیداد کے طور پر رجسٹر کروا لیا۔

’مسجد کلیسا، سب کی میراث‘ کے ترجمان میگُوئیل سانتیاگو کا کہنا ہے کہ 1236ء میں شاہ فرڈینینڈ کی طرف سے قبضے کا عمل کوئی ایسا اقدام نہیں تھا کہ اس طرح کلیسائے روم کو خود بخود اس عبادت گاہ کی ملکیت کے حقوق مل جاتے۔ سانتیاگو کے بقول، ’’سیاحوں کو مہیا کیے جانے والے پمفلٹ نہ صرف اس قدیم عبادت گاہ کے اسلامی ماضی کی تقریباﹰ نفی کرتے ہیں بلکہ ان میں محض ’مسلمانوں کی طرف سے مداخلت‘ اور ’اسلامی باقیات‘ جیسی غلط اصطلاحات قرطبہ شہر سے دشمنی کے مترادف ہیں جو اسپین میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی بھی ایک کوشش ہے۔‘‘

سانتیاگو کے مطابق، ’’قرطبہ میں جب لوگ آتے ہیں، تو وہ قرطبہ کی جامع مسجد دیکھنے آتے ہیں، نہ کہ کوئی کیتھیڈرل۔‘‘ میگُوئیل سانتیاگو کی تنظیم ’مسجد کلیسا، سب کی میراث‘ کا مطالبہ ہے کہ قرطبہ کی صدیوں پرانی اس عبادت گاہ کا انتظام مقامی کلیسا کے ساتھ ساتھ بلدیاتی حکام کو مل کر چلانا چاہیے۔

قرطبہ کے مقامی مسلمانوں کی تنظیم قرطبہ مسلم ایسوسی ایشن کے صدر کمال میخیلَیف کے مطابق، ’’مسلمانوں کو اس بات سے شدید تکلیف پہنچتی ہے کہ کلیسا کی طرف سے نہ صرف تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس عبادت گاہ کے نام کے ساتھ مسجد کا لفظ استعمال کرنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔‘‘