1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی سينيٹ تحليل، فوج کو قانون سازی کا اختيار بھی

عاصم سليم24 مئی 2014

تھائی لينڈ ميں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ملک ميں کام کرنے والے بقیہ جمہوری اداروں ميں سے سينيٹ کی تحليل کے بعد اب یہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں کہ پارلیمانی ایوان بالا کی طرف سے نئے وزير اعظم کے نام کا اعلان کيا جا سکتا تھا۔

https://p.dw.com/p/1C6Da
تصویر: Reuters

تھائی لينڈ ميں آج ہفتہ چوبيس مئی کے روز ملکی فوج نے 150رکنی ملکی سينيٹ کو تحليل کر ديا۔ فوج کے سربراہ جنرل پرايُتھ چن اوچا اب عبوری وزير اعظم کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہيں۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ آيا وہ کوئی سويلين وزير اعظم نامزد کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں، جيسا کہ ماضی ميں ہوتا چلا آيا ہے۔

تھائی سينيٹ کی تحليل کے بارے ميں اعلان ’نيشنل پيس اينڈ آرڈر مينٹيننگ کونسل‘ کے ترجمان کرنل ونتھائی سوواری نے ٹيلی وژن پر آج نشر کردہ اپنے ايک بيان ميں کيا۔ سرکاری اعلاميے ميں انہوں نے کہا کہ کسی بھی قانون کی پارليمان يا سينيٹ کی طرف سے منظوری کا کام اب خود فوج کے سربراہ کريں گے۔

قبل ازيں جمعرات بائيس مئی کے روز تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرايُتھ چن اوچا نے سويلين حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کر ديا تھا۔ جنرل پرايتھ نے اپنے اس اقدام کی وجہ بيان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک ميں قانون کی بالادستی بحال کرنے، مزيد پر تشدد واقعات کو روکنے اور سياسی تعطل کی فضا کو ختم کرنے کے ليے يہ اقدام لازمی تھا۔

جنرل پرايُتھ چن اوچا
جنرل پرايُتھ چن اوچاتصویر: PORNCHAI KITTIWONGSAKUL/AFP/Getty Images

اقتدار پر قبضے کے بعد فوجی سربراہ نے قريب 190 سياستدانوں، سرکردہ شخصیات اور تعليم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو طلب کر ليا تھا، جن ميں سے قريب 100 تاحال حراست ميں ہيں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے تھائی فوج کے اس اقدام کا سختی سے نوٹس ليا ہے۔ جنيوا سے جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں انہوں نے کہا، ’’فوج کی طرف سے سينئر سياستدانوں اور شہريوں کو حراست ميں رکھنے کا عمل پريشان کن ہے اور ميں NPOMC پر زور ديتی ہوں کہ انہيں فوری طور پر رہا کيا جائے۔‘‘

تھائی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حراست ميں رکھے جانے والے سياستدانوں اور ديگر افراد کو ايک ہفتے ميں رہا کر ديا جائے گا۔ انہوں نے يہ بات آج ايک پريس کانفرنس کے دوران کہی۔

ہيومن رائٹس واچ کے ايشيا کے لیے ڈائريکٹر بريڈ ايڈمز کے بقول تھائی لينڈ ميں فوجی حکومت نے ملک ميں انسانی حقوق کی صورتحال کو باعث تشويش بنا ديا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وسيع پيمانے پر سنسرشپ اور ذرائع ابلاغ کے خلاف دھمکيوں کا مقصد فوجی اقتدار کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو بند کرنا ہے۔‘‘

تاحال فوج کے سربراہ نے نئے وزير اعظم اور عبوری کابينہ کی تقرری کے شيڈول کا اعلان نہيں کيا۔ تھائی لینڈ میں ماضی کی فوجی بغاوتوں کے دوران عام طور پر جنتا کے اقتدار میں آتے ہی نئے وزير اعظم اور عبوری کابينہ کی تقرری کے شيڈول کا اعلان کر ديا جاتا تھا۔