1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحفظ پاکستان بل 2014ء سینیٹ سے منظور

شکور رحیم، اسلام آباد1 جولائی 2014

یہ مسودہ قانون پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کارروائیوں کی روک تھام میں مدد دے گا۔

https://p.dw.com/p/1CTUO
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) نے ملک میں جاری دہشت گردانہ کاروائیوں سے نمٹنے کے لیے تحفظ پاکستان بل 2014ء کے مسودے کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔ پہلے کے برعکس حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت نے اس بل کی منظوری کی مخالفت نہیں کی۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ملک کی موجودہ غیرمعمولی صورتحال کے پیش نظر بل کی حمایت کی ہے۔

اس بل کی منظوری کے لیے سینیٹ کا ایک روزہ خصوصی اجلا س پیر 30 جون کی شام ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سائنس وٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحفظ پاکستان بل 2014ء ایوان میں پیش کیا۔ اس موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر داخلہ کی ایوان میں عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ایوان میں عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیا
حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ایوان میں عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیاتصویر: picture-alliance/dpa

سینیٹ نے اس بل کی منظوری ایک ایسے موقع پر دی ہے جب فوج نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے۔

اس سے قبل تحفظ پاکستان بل کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اورسینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کا باعث حکومت متعدد کوششوں کے باوجود اس بل کو منظور نہیں کرا سکی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بل کے ایک ترمیمی مسودے پر اتفاقِ رائے کے بعد یہ پیش رفت ممکن ہوئی۔

وفاقی وزیر مملکت اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے جمہوری طریقے سے تحفظ پاکستان بل کو منظور کرایا۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’جو دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے اس پر پوری حکومت فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان معاملات سمیت ملک کو جو دوسرے درپیش مسائل ہیں ان کے حل کے لیے ان تمام ان سیاسی جماعتوں سے جن کی اسمبلی میں نمائندگی ہے، مشاورت جاری رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی تاکہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جا سکے۔‘‘

عابدشیر علی کے مطابق بل کی منظوری کے بعد دہشتگردانہ کاروائیوں سے نمٹنے میں بڑی مدد ملے گی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے 25 جون کو اس بل کے مسودے کی منظوری دی تھی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایک اہم ترمیم یہ بھی منظور کی تھی جس کے تحت مشتبہ فرد کو گولی مارنے کا اختیار صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے اہلکار یا پندرہ گریڈ یا اس سے زیادہ کے افسر کے پاس ہوگا۔

سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے محکمانہ کارروائی کی بجائے عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات تجویز کی گئی ہیں۔

شمالی وزیرستان آپریشن میں ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے گی، پاکستانی فوج
شمالی وزیرستان آپریشن میں ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے گی، پاکستانی فوجتصویر: Reuters

حزب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی ترامیم سے اس بل کے خدوخال میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے یہ تھا کہ شک کی بنیاد پر نوے دن کے لیے آپ کسی کو بھی اٹھا کر بند کر دیں تو ہم نے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن ہوں اور تحریری طور پر دیں کہ اس شخص پر کیا کیا ہے۔ اور بھی کچھ چھوٹی موٹی چیزیں ہم نے ڈالوائی ہیں اس سے یہ ہوا ہے کہ جو بنیادی انسانی حقوق ہیں ان کا خیال کیا گیا ہے۔‘‘

سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس ضمن میں صدر نے قومی اسمبلی کااجلاس دو جولائی کو طلب کررکھا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر بریفنگ

پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن میں ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے گی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور سرحدی امور کے وزیر لفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے آج منگل یکم جولائی کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سےمتعلق بریفنگ دی ۔

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ کہ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن گیا تھا اور یہیں سے پاکستان اور سرحد پار افغانستان میں بھی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ یا کوئی بھی دوسرا ملک شمالی وزیرستان آپریشن میں پاکستان کی کسی قسم کی مدد نہیں کر رہا۔

سرحدی اُمور کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا حقانی گروپ یو یا کوئی بھی، دہشتگردی میں ملوث کسی بھی شخص یا گروہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔