1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت نے 'مخالف پاکستانی شہریوں کے قتل کی ترید' کر دی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
5 اپریل 2024

برطانوی اخبار' گارڈین' کی رپورٹ کے مطابق بھارت 'ان لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے پالیسی پر عمل پیرا ہے، جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔' تاہم نئی دہلی نے اس طرح کی کسی بھی پالیسی کو مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eRuy
علامتی تصویر
تصویر: Ercin Erturk/AA/picture alliance

معروف برطانوی میڈیا ادارے 'دی گارڈین' کی ایک خاص تفتیشی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی جو وسیع تر حکمت عملی اپنا رکھی ہے، اس کے تحت اس نے اب تک متعدد پاکستانی شہریوں کو قتل کروا دیا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان پر سخت نکتہ چینی

اس رپورٹ کے مطابق بھارتی ایجنسیاں سن 2020 سے اب تک مبینہ طور پر پاکستان میں ایسے 20 افراد کے قتل میں ملوث رہی ہیں، جنہیں نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا۔

بھارت کشمیری انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کرے، پاکستان

تاہم نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے گارڈین کی رپورٹ میں کیے گئے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ برطانوی میڈیا ادارے نے یہ رپورٹ جمعرات کے روز شائع کی تھی اور جمعہ کی صبح بھارت کے تقریبا ًتمام میڈیا اداروں کی یہی بڑی خبر تھی کہ یہ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

ایل او سی پر عام شہری کی ہلاکت پر پاکستان کا بھارت سے احتجاج

رپورٹ میں مزید کیا ہے؟

دی گارڈین نے اپنی رپورٹ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کی انٹیلیجنس کے حوالے سے شائع کی ہے اور بتایا کہ کس طرح بھارت نے سن 2019 کے بعد سے اپنی قومی سلامتی کی ''حوصلہ مند پالیسی کے تحت ایسے قتل'' کو انجام دینا شروع کیا۔

کیا دہلی میں پاکستانی شہروں سے منسوب دکانیں محفوظ ہیں؟

رپورٹ کے مطابق ان سرگرمیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی 'ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ' (را) کے براہ راست ملوث ہونے کے واضح اشارے ہیں۔ اس کے مطابق، ''سن 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد سے اب تک بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے پاکستان میں اس طرح کے 20 قتل کروائے'' گئے ہیں۔

کنٹرول لائن پر گولہ باری کے تبادلے کی زد میں مقامی کسان

برطانوی میڈیا ادارہ کہتا ہے کہ یہ رپورٹ پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ شواہد اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ’بپر جوائے‘ کی آمد پر ریڈ الرٹ

رپورٹ کے مطابق پاکستانی تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ ان ''ہلاکتوں کو بھارتی انٹیلیجنس کی سلیپر سیلز نے انجام دیں، جو بیشتر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے کام کرتی رہی ہیں۔''

بھارت میں ایس سی او سمٹ میں پاکستان کی شرکت کی تصدیق

رپورٹ کے مطابق انہیں سلیپر سیلوں نے مبینہ طور پر مقامی مجرموں یا غریب پاکستانیوں کو قتل کرنے کے لیے لاکھوں روپے ادا کیے۔ بھارتی ایجنٹوں نے مبینہ طور پر قتل کرنے کے لیے جہادیوں کو بھی بھرتی کیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ جیسے  وہ ''کافروں '' کو مار رہے ہیں۔

پاکستان بھارت مخالف انتہاپسندوں کو لگام دے، بائیڈن، مودی

دی گارڈین نے اپنی رپورٹ کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے جن دو افسران سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کی حکمت علمی کا انتخاب کیا۔

ایک افسر نے اخبار کو بتایا، ''پلوامہ کے بعد ملک سے باہر عناصر کو نشانہ بنانے کے لیے نقطہ نظر تبدیل کر دیا گیا کہ قبل اس کے کہ وہ کوئی حملہ کریں یا خلل پیدا کریں، انہیں پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔''

ایک اور بھارتی انٹیلیجنس آپریٹو نے گارڈین کو بتایا، ''ہم حملوں کو روک نہیں سکے کیونکہ بالآخر ان کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں تھیں، اس لیے ہمیں منبع تک جانا پڑا۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی کارروائیوں کے لیے حکومت میں اعلیٰ سطح سے منظوری درکار ہوتی ہے۔

مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں بھارت کو اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور روسی انٹیلیجنس ایجنسی کے جی بی سے رغبت حاصل ہوئی، جو ماورائے عدالت قتل کے لیے معروف رہی ہیں۔

بھارتی فورسز
دو پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کا بھی حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا تھا کہ سن 2020 سے اب تک 20 پاکستانیوں کی ہلاکت میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ہےتصویر: Channi Anand/AP Photo/picture alliance

انہوں نے گارڈین سے بات چیت میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حوالہ دیا اور کہا، ''جمال خاشقجی کے قتل کے چند ماہ بعد ہی وزیر اعظم کے دفتر میں انٹیلیجنس کے اعلیٰ افسران کے درمیان یہ بحث ہوئی کہ اس کیس سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔'' ایک سینیئر افسر نے میٹنگ میں کہا کہ ''اگر سعودی ایسا کر سکتے ہیں۔ تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟''

بھارتی ایجنسی کہاں کہاں سرگرم ہے؟ 

برطانوی میڈیا ادارے نے اپنی رپورٹ میں دو پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کا بھی حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا تھا کہ سن 2020 سے اب تک 20 پاکستانیوں کی ہلاکت میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

ان افسران نے گواہوں کی شہادتیں، گرفتاری کے ریکارڈ، مالی لین دین کے ریکارڈ، واٹس ایپ کے پیغامات اور پاسپورٹ جیسے شواہد کا حوالہ دیا، جو اس کا حصہ تھے۔ تاہم دی گارڈین نے یہ بھی کہا کہ ان دستاویزات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

پاکستان میں قتل کی نگرانی کرنے والے را کے ہینڈلرز کی میٹنگیں نیپال، مالدیپ اور ماریشس میں بھی ہوئیں۔ ایک پاکستانی اہلکار نے بتایا، ''پاکستان میں قتل عام کرنے والے بھارتی ایجنٹوں کی یہ پالیسی راتوں رات تیار نہیں کی گئی۔ ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں ان سلیپر سیلز کو قائم کرنے کے لیے تقریباً دو برس تک کام کیا، جو زیادہ تر قتل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے بہت سی ہلاکتوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔''

تاہم، پاکستان عوامی طور پر ان ہلاکتوں کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہا ہے کیونکہ زیادہ تر اہداف دہشت گرد اور کالعدم عسکریت پسند گروپوں کے ساتھی ہیں جنہیں اسلام آباد نے طویل عرصے سے پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔

بھارت نے رپورٹ پر کیا کہا؟

برطانوی اخبار دی گارڈین کی یہ رپورٹ جیسے ہی منظر عام پر آئی، نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے اس کی ترید میں ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ یہ ''جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی بھارت مخالف پروپیگنڈہ'' ہے۔

وزارت خارجہ نے اس حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے دی گارڈین کو دیے گئے ایک سابق بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دوسرے ممالک میں ٹارگٹ کلنگ ''بھارتی حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔''

اس سے قبل امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک بھی بھارت پر غیر ملکی سرزمین پر ہدف بنا کر قتل کرنے کی کوششوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ برس ستمبر میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ خالصتانی علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی حکام کے ملوث ہونے کے ''معتبر ثبوت'' ہیں۔

واضح رہے کہ کینیڈین شہری نجر کو جون میں سرے کے ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی بھارت نے اس الزام کو ''بے بنیاد'' قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

اس کے فوری بعد امریکہ نے کہا کہ اس نے اپنے ایک شہری اور خالصتانی علیحدگی پسند رہنما گروپتونت سنگھ پنن کو قتل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دی۔ واشنگٹن نے بھی اس قتل کی کوشش کی ذمہ داری بھارت کے ایک سرکاری اہلکار پر عائد کی ہے، جس کی بھارت تفتیش کر رہا ہے۔

 بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے امریکہ کو بتایا ہے کہ اس کی تحقیقات میں ایک اہلکار کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے۔ البتہ اب یہ شخص ایجنسی کے ساتھ کام نہیں کر رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بٹا ہوا کشمیری گاؤں