1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں غریبوں کے لیے خوراک پروگرام کی منظوری

عصمت جبیں4 جولائی 2013

بھارتی حکومت نے ملک میں کئی سو ملین غریب شہریوں کے لیے ایک وسیع تر خوراک پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ اس فلاحی پروگرام کے ذریعے حکومت اگلے سال ہونے والے عام الیکشن سے پہلے اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/191xj
تصویر: AP

اس پروگرام سے متعلق فوڈ سکیورٹی آرڈیننس کی بھارتی کابینہ نے بدھ کے روز متفقہ رائے سے منظوری دے دی۔ بعد ازاں اس بارے میں بھارتی وزیر خوراک کے وی ٹامس نے صحافیوں کو بتایا کہ کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد یہ پروگرام بدھ ہی کے دن منظوری کے لیے ملکی صدر کو بھجوایا جانا تھا۔

Manmohan Singh
وزیراعظم منموہن سنگھتصویر: AFP/Getty Images

اے ایف پی کے مطابق یہ پروگرام پہلے ہی کافی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی کو اس نیشنل فوڈّ سکیورٹی بل کی ایک آرڈیننس کے طور پر منظوری دینا تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آرڈیننس فوری طور پر قانون بن جائے گا لیکن بعد میں حکومت کو اس کے لیے پارلیمان سے لازمی طور پر منظوری حاصل کرنا ہو گی۔

اس فلاحی پروگرام پر کئی بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہو گا۔ اس پروگرام کے تحت بھارت کی 70 فیصد کے قریب آبادی کو کم نرخوں پر زرعی اجناس مہیا کی جا سکیں گی۔ بھارتی شہریوں کی یہ تعداد 800 ملین سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

اس پروگرام کی منظوری کے لیے حکمران کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے خاص طور پر بہت زیادہ کوششیں کی تھیں۔ ان کا اصرار تھا کہ کانگریس پارٹی کو 2009ء کے عام الیکشن کے موقع پر کیا جانے والا اپنا عوامی وعدہ ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔ اس وعدے کے پورا کیے جانے کے سلسلے میں اس پروگرام کے عوامی خزانے اور اشیائے خوراک کی قیمتوں پر اثرات کے حوالے سے کافی زیادہ تحفظات پائے جاتے تھے۔

حکومتی اہلکاروں کا خیال ہے کہ اس پروگرام کے نتیجے میں فوڈ سبسڈی پر اٹھنے والے اخراجات کی سالانہ مالیت 1.1 ٹریلین روپے یا قریب 20 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہو جائے گی۔ لیکن کانگریس پارٹی کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کا اندازہ ہے کہ اس پروگرام کے ساتھ اگلے سال کی پہلی ششماہی میں ہونے والے الیکشن کے سلسلے میں عوامی ہمدردیوں میں بڑی تبدیلیاں لائی جا سکیں گی۔

Armut Indien Obdachlose Männer
غربت کے شکار عوام کی بہت بڑی تعداد کو اشیائے خوراک کی کافی مقدار میں دستیابی کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا ہےتصویر: AP

وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکومت اس فوڈ پروگرام کے بارے میں ایک قانونی بل اس سال فروری میں پارلیمان میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ مگر تب حکومت نے ایسا کوئی مسودہء قانون پارلیمان میں پیش ہی نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ اپوزیشن کے وہ مظاہرے بنے تھے جو حکومت کے کرپشن اسکینڈلز کے خلاف کیے گئے تھے اور جن کے باعث پارلیمان کی کارروائی زیادہ تر تعطل کی شکار رہی تھی۔

نئی دہلی میں مرکزی اپوزیشن نے اس بل کو پارلیمان کے بجائے آرڈیننس کی شکل میں منظور کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس قومی فوڈ پروگرام کے زرعی اجناس کی قیمتوں پر اثرات کے بارے میں کافی بحث نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ اب بھارتی کسان زیادہ خوراک پیدا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس بل کے تحت غریب اور ضرورت مند شہریوں کو یہ ضمانت دی جائے گی کہ ہر شہری کو اس کی آمدنی کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہانہ تین کلو گرام سے لے کر سات کلو گرام تک اجناس مہیا کی جائیں گی۔

پچھلی دو دہائیوں کے دوران شاندار اقتصادی ترقی کے باوجود بھارت میں گزشتہ سات برسوں کے دوران اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس وجہ سے غربت کے شکار عوام کی بہت بڑی تعداد کو اشیائے خوراک کی کافی مقدار میں دستیابی کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا ہے۔

گزشتہ برس بھارت میں ایک سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے 42 فیصد بچے کم وزنی کا شکار ہیں اور ان میں سے بھی 58 فیصد کو خرابیء صحت کا سامنا ہے۔ تب وزیراعظم منموہن سنگھ نے ان اعداد و شمار کو ‘قومی سطح پر شرم کا باعث‘ قرار دیا تھا۔