1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جنسی زیادتی کے کم عمر مجرموں کے قانون میں تبدیلی کی تجویز

افسر اعوان18 جولائی 2014

بھارتی حکومت نے تجویز کیا ہے کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں کم عمر مجرموں پر بھی وہی قوانین لاگو ہونے چاہییں جو بالغ افراد پر ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس تجویز کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CfEe
تصویر: Reuters

بدری ناتھ سنگھ اس 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ نربھایا کے والد ہیں جسے دسمبر 2012ء میں ایک چلتی بس میں اجتماعی زیادتی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کی طرف سے اس حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ دہلی ایئرپورٹ پر بطور قلی کام کرنے والے سنگھ کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’’جب معاملہ ریپ کا آتا ہے تو پھر بالغ اور نوجوان مجرموں کے درمیان کوئی تفریق نہیں رکھی جانی چاہیے۔ دونوں سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔‘‘

2013ء میں 16 سے 18 برس کے جن بچوں کو جرائم کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان کی تعداد 1338 ہے
2013ء میں 16 سے 18 برس کے جن بچوں کو جرائم کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان کی تعداد 1338 ہےتصویر: STRDEL/AFP/Getty Images

بہیمانہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی نربھایا کچھ دن بعد زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔ اس کیس پر بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔ جس کے بعد حکومت ریپ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی پر مجبور ہوئی۔

نربھایا کے مقدمے میں چار بالغ مجرموں کو تو سزائے موت سنائی گئی تاہم پانچواں ملزم جو 18 برس کی عمر سے صرف چھ ماہ کم تھا، اسے محض تین برس کی قید سنائی گئی اور وہ بھی ایک اصلاحی ادارے میں، کیونکہ بھارتی قانون کے مطابق کسی نو عمر مجرم کو زیادہ سے زیادہ اتنی سزا ہی دی جا سکتی ہے۔

چند روز قبل ایک بھارتی عدالت نے گینگ ریپ کے دو نو عمر مجرموں کو محض تین برس ایک اصلاحی اسکول میں گزارنے کی سزا سنائی تاکہ وہ اچھا کردار سیکھ سکیں۔ ان مجرموں نے ایک فوٹو جرنلسٹ اور ایک خاتون ٹیلیفون آپریٹر کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

رواں ماہ کے آغاز میں بھارت میں خواتین اور بچوں کے معاملات کی وزیر مانیکا گاندھی نے کہا تھا کہ بھارت میں نو عمر افراد کے حوالے سے انصاف کے لیے قانون میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس وزارت کی طرف سے تجویز دی گئی تھی کہ قتل اور ریپ میں ملوث ایسے مجرم جن کی عمر 16 سے 18 برس کے درمیان ہو، ان کے معاملے میں جووینائل بورڈ یہ طے کر سکتا ہے کہ انہیں اصلاحی مرکز میں بھیجا جائے یا ان کا مقدمہ بالغ افراد کی طرح عام عدالت میں چلایا جائے۔

مانیکا گاندھی کا کہنا تھا، ’’بھارتی پولیس کے مطابق 50 فیصد جنسی جرائم ٹین ایج مجرمان کی طرف سے کیے جاتے ہیں جنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ پکڑے بھی گئے تو سزا سے بچ جائیں گے۔ ہمیں ایسے مجرموں کو بالغوں کی عدالت میں لانا چاہیے۔ اس سے نوعمر لوگوں میں جرائم کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘‘

تاہم خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس حکومتی تجویز کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاندھی کی طرف سے نوعمر افراد کی طرف سے جرائم کی جو شرح بیان کی گئی، وہ درست نہیں ہے۔

بہیمانہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ نربھایا کے کیس پر بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔ جس کے بعد حکومت ریپ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی پر مجبور ہوئی
بہیمانہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ نربھایا کے کیس پر بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔ جس کے بعد حکومت ریپ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی پر مجبور ہوئیتصویر: picture-alliance/dpa

پرو چائلڈ نیٹ ورک بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی 58 غیر سرکاری تنظیموں کا اتحاد ہے۔ اس نیٹ ورک کی طرف سے ڈی ڈبلیو کو بتایا گیا کہ 2013ء میں 16 سے 18 برس کے جن بچوں کو جرائم کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان کی تعداد 1338 ہے۔

اس نیٹ ورک کے مطابق، ’’کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت جیسے گنجان آباد ملک میں حکومت اتنی کم تعداد کو نہیں سنبھال سکتی اور ایسے لوگوں کو بڑوں کی عدالت میں لے جایا جائے۔‘‘

ایک وکیل وریندا گروور کے مطابق، ’’سائنسی اور عملی بنیادوں پر قوانین سازی کی بجائے کیا ہم ایک ایسا قانون بنانے جا رہے ہیں جو محض پولیس کے دعووں پر مبنی ہو؟‘‘

بدھ 17 جولائی کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے بھارت میں بچوں کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کی تجویز کے خلاف احتجاج بھی کیا۔