1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچے کے لیے ماں کا دودھ: خیبر پختونخوا میں نئی قانون سازی کا فیصلہ

فرید اللہ خان، پشاور28 فروری 2014

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے بچوں میں شرح اموات میں کمی کے لیے ان کی خاطرمخصوص حالات میں طبی طور پر پاؤڈر ملک تجویز کیے جانے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BHaH
تصویر: DW/D. Baber

صوبائی حکومت نے اس بارے میں باقاعدہ قانون سازی کی تیاریاں کر لی ہیں۔ بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کے نام سے یہ مسودہء قانون صوبائی اسمبلی کے رواں اجلاس میں ہی ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔

اس آئندہ قانون کے مسودے کی رُو سے چھ ماہ سے کم عمر کے کسی بچے کو ڈبے کا دودھ تجویز کرنے والے کسی بھی ڈاکٹر کو دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا اور ممکنہ طور پر اسے جیل بھی جانا ہو گا۔

اس سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے نے پشاور میں صوبائی وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا، ”بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کے نام سے یہ قانون تیار ہے اور اسے اسمبلی سے پاس کروانے کے بعد نافذ کیا جائے گا۔ اگر اسمبلی میں نہ لا سکے تو اسے آرڈیننس کی شکل میں کسی بھی وقت لے آئیں گے۔‘‘

Bildergalerie Iran KW34 Kinder
پاکستان میں چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں شرح اموات 139 بچے فی ہزار بنتی ہےتصویر: MEHR

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر نے چھ ماہ کے عمر سے قبل ذاتی پروموشن یا کمیشن کی خاطر کسی بچے کو ڈبے کا دودھ تجویز کیا تو ایسا کرنے والا ڈاکٹر جیل جائے گا اور اسے دو لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ تاہم جب متعلقہ وزیر سے یہ پوچھا گیا کہ آیا مخصوص حالات میں بچوں کے لیے ڈبے کا دودھ تجویز کیا جا سکے گا، تو انہوں نے کہا، ’’ایسا صرف رجسٹرڈ ماہرین امراض اطفال ہی کر سکی گے۔‘‘

پاکستان میں چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں شرح اموات ہر ایک ہزار بچوں میں 139ہے جو ہمسایہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر بچے غیر معیاری دودھ کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں 38 فیصد بچوں کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے۔ ڈبے کا دودھ زیادہ تر نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں تجویز کیا جاتا ہے۔؃ب؃

اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے ایک نجی کلینک کے ڈاکٹر رفیع اللہ سے بات چیت کی، تو ان کا کہنا تھا، ”کئی ایسی بیماریاں ہیں جس کی وجہ سے بعض بچوں کو شروع دن سے ہی مصنوعی دودھ تجویز کرنا پڑتا ہے۔ بعض مائیں بھی ایسی ہوتی ہیں جنہیں بعض ایسی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں کہ وہ بچے کو دودھ نہیں دے سکتیں۔ بعض خواتین کی بیماری کی وجہ سے ان کا دودھ بچے کی صحت کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اپنی طرف سے یہ دودھ تجویز نہیں کرتے۔‘‘

Bildergalerie Mutterliebe Indien
نئی قانون سازی کے ذریعے حکومت ان شیرخوار بچوں میں شرح اموات کم کرنا چاہتی ہے، جنہیں ان کی مائیں دودھ نہیں پلاتیںتصویر: imago/Chromorange

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس طرح کا قانون لا رہی ہے تو انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ ماں کا دودھ نہ ہونے کی صورت میں والدین کیا کریں گے؟ ’’ہم کسی کمپنی یا پھر ذاتی فائدے کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ والدین کی مجبوری اور بچے کی زندگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈبے کا دودھ تجویز کرتے ہیں، ورنہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔‘‘

اس سے قبل بلوچستان نے پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن بل 2014 اسمبلی سے پاس کروایا تھا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل بات ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے کیونکہ ملک میں پروٹیکشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ ینگ چائلڈ نیوٹریشن آرڈیننس 2002 پہلے سے ہی موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوتا۔

خیبر پختونخوا حکومت نے حال ہی میں”صحت کے انصاف“ کے نام سے بچوں کو نو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے مہم شروع کی، جس میں اب تک سولہ لاکھ بچوں کو نو بیماریوں سے بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ یہ مہم اپریل تک جاری رہے گی۔