1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کا اغوا مافیاز کے لیے منافع بخش تجارت

26 اپریل 2024

بچوں کا اغوا بدقسمتی سے شرپسند عناصر کے لیے اب ایک منافع بخش تجارت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ عناصر بچوں کے جسمانی اعضا کا کاروبار کرتے ہیں اور یا پھر انہیں اپاہج بنا کر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fD1l
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

بچے مجرموں کے لیے آسان ہدف ہیں۔ انہیں رنگ برنگے کھلونے، انوکھی ڈیوائیسز، چاکلیٹس کا جھانسہ دے کر یا انہیں کنفیوز کرنے اور ورغلانے والے جملے استعمال کرکے اغوا کی وارداتوں میں انہیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اغوا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ یہ جرم خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے کیونکہ افلاس، غربت، عوام کے لیے وسائل کی کمی اور حکومت کی اس طرح کے غیر انسانی عمل کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی اس کے محرکات ہیں۔

بچوں کا اغوا بدقسمتی سے شرپسند عناصر کے لیے اب ایک منافع بخش تجارت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جیسا کہ بچوں کے جسمانی اعضا کاٹ کر انہیں مفلوج بنانا اور پھر بھیک مانگنے پر مجبور کرنا وغیرہ۔ ان مافیاز کے کارندے منظم طورپر مختلف شہروں سے اغوا شدہ بچوں کو ٹھیکے پر لے کر آتے ہیں۔ علاقوں کو منتخب کر لیا جاتا ہے اور بھکاری بچوں کو رکشہ، بسوں میں بٹھا کر رات کو اکٹھا کرکے مقررہ جگہوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سے مشقت لی جاتی ہے، جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کا برین واش کرکے انہیں کسی ملک و قوم کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ستم ظریفی کہ قحبہ گری جیسے گھناؤنے امور میں بھی اغواشدہ بچے سرفہرست ہیں۔ بچوں کے اغوا کے حوالے سے جنسی تشدد اور ان کی فروخت  ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ معاشرتی اہم کردار یہ ہونا چاہیے کہ ان معصوم بچوں سے بڑے سمارٹ طریقے سے پوچھا جائے کہ ان کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا۔ کیا وہ والدین کے پاس رہتے ہیں۔ کیا وہ گھر کی معاشی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگتے ہیں یا کوئی اور ان سے مجبوراً یہ سب کروا رہا ہے۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم پیشہ عناصر کسی فیملی کے بارے میں تفصیلات آسانی سے جان سکتے ہیں، جیسے والدین یا رشتے داروں کے نام، بچوں کو سالگرہ پر کس کی طرف سے کیا تحائف ملے، وہ کہاں کہاں گھومنے جاتے ہیں یا ان کے کیا مشاغل ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

اغوا کار بڑے نفسیات شناس ہوتے ہیں۔ ان کی جانب سے ایسے حربے آزمائے جاتے ہیں کہ بچے مقناطیس کی مانند کھچے چلے آتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کے لیے ہماری ذرا سی توجہ ان اغواکاروں کے منفی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہوگی۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کام میں چھوٹے بچے سے مدد کی درخواست کرے تو یہ ایک ریڈ الرٹ یا انتباہی اشارہ ہے کیونکہ عام حالات میں میچور افراد بچوں سے مدد کی التجا نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی بچہ پریشانی کے عالم میں کسی خاتون یا مرد سے ہاتھ چھڑوا رہا ہو تو بچے سے پوچھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک ہے؟ اگر تو وہ اغواکار ہوا تو بچہ چھوڑ کر بھاگ جائے گا کہ لوگ اس کے چہرے کو اپنے ذہنوں میں نقش نہ کرلیں۔

ایسے بھی واقعات رپورٹ ہوئے کہ جب بچوں کو کسی اجنبی نے ہیوی بائیک کی سیر کا لالچ دے کر اغوا کر لیا کہ اگر تم نے سواری کی تو سپرمین لگو گے۔ بہت کم لڑکے ہی اس طرح کی جوشیلی آفر کو ریجیکٹ کر پاتے ہیں، اگر آپ بھی ایسی صورتحال دیکھیں تو اپنی بصیرت کا استعمال کریں کہ آخر ایک موٹرسائیکل سوار کسی اجنبی بچے کو اپنے ساتھ موٹرسائیکل کی سیر کی پیشکش کیوں کررہا ہے؟

بسا اوقات مشکوک اشخاص پلے گراؤنڈز کے گرد مسلسل چکر لگا کر جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد زیادہ مشتبہ ہوتے ہیں۔ ان افراد کی تصویر انہی کے سامنے لے لیجیے تاکہ یہ بھی بھانپ لیں کہ وہ شک کے دائرے میں آ چکے ہیں۔ ایسا کرنا ممکنہ اغواکار کو ہراساں کر دے گا۔

ہماری ایک خامی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو ٹریننگ ہی نہیں دی کہ لوگ بچوں کو کن حیلے بہانوں سے اغوا کرتے ہیں اور اغوا ہونے سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پا رہی ہوتی۔ اگر بچہ اپنی کوئی مشکل بیان کرنے کی سعی بھی کرے تو والدین اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی اسے جھڑک دیتے ہیں۔ اس لیے بچے زیادہ تر گھر سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔ اپنے بچوں کو وقت دیجیے، دوریاں ختم کرکے دوستی کی فضا کو پروان چڑھائیں تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے۔

بظاہر بچوں کا اغوا غیر قانونی ہے لیکن اس مسئلے پر قانونی موقف ہی صاف نہیں ہے۔ بہت کم پولیس آفیسرز اپنی قابلیت سے بچوں کو بازیاب کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے اغوا، زیادتی و قتل کے واقعات روکنے کے لیے زینب الرٹ بل موجود ہے۔ زینب الرٹ بل میں پولیس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعے کی رپورٹ کے دو گھنٹوں کے اندر اس کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی اور بچوں کے اغوا میں اضافہ نے والدین کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔