1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچو ں کی گمشدگی، بھارتی عدالت عالیہ کی حکومت کو سرزنش

جاوید اختر، نئی دہلی17 اکتوبر 2014

بھارت میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد بچے غائب ہوجاتے ہیں۔ ملکی سپریم کورٹ نے لاپتہ بچوں کی بازیابی کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کے لاپرواہ رویے پر سخت سرزنش کرتے ہوئے انہیں وارننگ دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DX2S
تصویر: CC-BY-SA-3.0 LegalEagle

اس سال کے نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایچ ایل دتو نے غائب ہوجانے والے بچوں کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کی ’’تساہلی، بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ رویے‘‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ چیف جسٹس دتو نے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا جب چند دن قبل آدھی رات کے وقت ایک عورت روتی پیٹتی ان کی رہائش گاہ پر پہنچی اور اپنے گمشدہ بچے کا پتہ لگانے میں مدد کی اپیل کی۔

خیال رہے کہ بھارت میں بچوں کے غائب ہوجانے کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سرکاری ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعدادو شمار کے مطابق ہر آٹھ منٹ میں ایک بچہ غائب ہوجاتا ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2011 سے جون 2014 کے درمیان 325,000 بچے لاپتہ ہوئے۔ یعنی اوسطاﹰ ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ بچے غائب ہورہے ہیں۔ غائب ہوجانے والے بچوں میں 55 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور 45 فیصد لاپتہ بچوں کا کبھی پتہ نہیں چل پاتا جس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں یا تو مار دیاجاتا ہے یا بھیک مانگنے یا عصمت فروشی کے پیشے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ بھارت میں بچوں کے لاپتہ ہونے کی بد تر صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پڑوسی ملک پاکستان میں ایسے بچوں کی سالانہ تعداد تین ہزار جب کہ چین میں لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد سالانہ دس ہزار ہے۔

کیلاش ستیارتھی کے بیٹے اور بچپن بچاؤ آندولن کے وکیل بھون ریبھو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ طے ہے کہ جب تک پورا سماج ایک ساتھ مل کر بچوں کی حفاظت کے لیے آگے نہیں آئے گا، تب تک بچوں کو محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ عدلیہ نے اپنا رول ہمیشہ ادا کیا ہے لیکن عدالت جو حکم دیتی ہے اگر اس پر عمل درآمد نہ ہو تو بچے محفوظ نہیں رہ سکتے۔‘‘

کیلاش ستیارتھی کی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت اور انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا
کیلاش ستیارتھی کی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت اور انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاتصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna


نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق بچوں کے غائب ہوجانے کے معاملے میں سب سے بدتر صورت حال ریاست مہاراشٹر کی ہے، جہاں پچھلے ساڑھے تین برس میں پچاس ہزار سے زائد بچے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد مدھیا پردیش، دہلی اور آندھرا پردیش کا نمبر ہے۔ قومی دارالحکومت نئی دہلی میں صرف سال2013 میں بچوں کے غائب ہونے کے 5809 واقعات درج کرائے گئے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ تقریباﹰ تمام ریاستوں میں غائب ہونیوالے بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مدھیہ پردیش میں تقریباﹰ نو ہزار لڑکوں کے مقابلے لاپتہ ہوجانے والی لڑکیوں کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ ہے۔

اس صورت حال پر آخر کس طر ح قابو پایا جاسکتا ہے، ہم نے جب یہ سوال بھون ریبھو سے کیا تو ان کاکہنا تھا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ (سپریم کورٹ نے) جو فیصلہ 10 مئی 2013 کو دیا تھا اگر اسے نافذ کیا جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جب بھی کسی بچے کے خلاف کوئی جرم ہو تو اسے رجسٹر کیا جائے۔ جب بھی کوئی بچہ غائب ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ اسے بردہ فروشی کے لیے اٹھا لیا گیا ہے یا اغوا کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری ہدایات موجود ہیں، تو مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں جب ریاستوں سے Status Report طلب کی گئی تو معلوم ہوا کہ انہیں جو کام کرنا تھا وہ اب تک نہیں کیا ہے۔‘‘


سپریم کورٹ نے انتہائی سخت لہجے میں کہا کہ اگر ریاست کے چیف سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل پولیس کے بچے غائب ہوجائیں تو انہیں کیسا لگے گا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ سول اور پولیس حکام بچوں کے غائب ہوجانے کے سلسلے میں30 اکتوبر کواگلی پیشی کے دوران عدالت میں کیا توجیح پیش کرتے ہیں۔