1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوکو حرام کے سینکڑوں شدت پسند گرفتار

ندیم گِل25 ستمبر 2014

نائجیریا کی فوج نے کہا ہے کہ اسلام پسند گروہ بوکو حرام کے سینکڑوں فائٹرز نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہیں حراست میں لیے لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DKfi
تصویر: dpa

نائجیریا کی فوج کے ترجمان میجر کرِس اولُوکولاڈے کا کہنا ہے کہ بوکو حرام کے سینکڑوں ارکان کو نائجیریا کے شمالی علاقے اور ہمسایہ ملک کیمرون سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ باتیں بدھ کو ابوجہ میں صحافیوں سے گفتگو میں بتائیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے عسکری ذرائع سے ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد ایک سو پینتیس بتائی ہے۔ نائجیریا کی فوج نے تصاویر بھی جاری کی ہیں جس میں بیٹھے ہوئے افراد کو بوکو حرام کے شدت پسند قرار دیا ہے جنہوں نے ہتھیار ڈالے۔

میجر اولُو کولاڈے نے کہا کہ بورنو ریاست میں جھڑپوں کے دوران بوکو حرام کے ایک شدت پسند کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے جسے اس گروہ کے سربراہ ابوبکر شیکاؤ کا ہم شکل قرار دیا جاتا تھا۔ یہ لڑائی بورنو کے شہر کوندُگا میں ہوئی جو اس دہشت گرد گروہ کے گڑھ مائیدوگوری سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

Nigeria Protest Boko Haram Entführung 26.5.2014
بوکو حرام نائجیریا میں سینکڑوں طالبات کے اغوا میں بھی ملوث ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

اولُوکولاڈے کا کہنا ہے کہ مارا جانے والا شخص محمد بشیر تھا جو ویڈیو پیغامات میں خود کو ابوبکر شیکاؤ کہہ کر پیش کرتا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بوکو حرام نے کیمرون کی سرحد سے ملحق علاقے کوندُوگا پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم رواں ماہ قبل ازیں کی گئی فضائی اور بری فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں اسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ماضی میں متعدد مرتبہ شیکاؤ کی ہلاکت کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔ اس ویک اینڈ پر بھی ذرائع ابلاغ نے اس کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ وہ کیمرون کی فوج کی ایک کارروائی میں مارا گیا ہے۔ تاہم اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

بوکو حرام نے نائجیریا میں اپریل میں دو سو زائد طالبات کو اغوا کر لیا تھا جن میں سے بیشتر مسیحی تھیں۔ یہ گروہ برسوں سے قتل و غارت، اغوا اور بم دھماکوں کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس گروہ نے نائجیریا کے دُور دراز شمالی علاقے میں متعدد دیہات اور قصبوں پر قبضہ کر کے انہیں ’مسلم علاقے‘ قرار دے دیا تھا جس کے بعد فوج نے ان کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔

فوج اور شہریوں پر حملوں کے نتیجے میں یہ گروہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کر چکا ہے۔ تاہم گزشتہ دو ماہ میں اس کی کارروائیوں میں بالخصوص اضافہ ہوا ہے۔