1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوکو حرام کے حملے میں کم از کم 87 افراد ہلاک

ندیم گِل20 ستمبر 2013

نائجیریا میں اسلام پسند تنظیم بوکو حرام کے ایک حملے میں کم از کم 87 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔

https://p.dw.com/p/19ktv
تصویر: AMINU ABUBAKAR/AFP/Getty Images

یہ حملہ نائجیریا کے ایک شمال مشرقی علاقے میں جمعرات کو رات گئے ہوا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے متعدد گھروں اور دیگر عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ درجنوں لاشیں سڑک کے کنارے پر پڑی تھیں۔

متعدد عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ بوکو حرام کے حملہ آوروں نے بنيشيک کے علاقے میں چیک پوائنٹس قائم کر رکھی تھیں اور انہوں نے علاقے سے فرار کی کوشش کرنے والے لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

شمال مشرقی ریاست بورنو میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے سید یعقوب نے صحافیوں کو بتایا: ’’جھاڑیوں سے 87 لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور ہمارے لوگ تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

وہ بورنر کے گورنر قاسم شاتيما کے ساتھ جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو بریفنگ دے رہے تھے۔ بوکو حرام اس علاقے میں پہلے بھی حملے کر چکی ہے اور اس حالیہ حملے کی ابتدائی معلومات بدھ کو سامنے آئی تھیں۔

اس علاقے میں تعینات ایک سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا: ’’وہ تقریباﹰ 20 پِک اَپ ٹرکوں میں جھُنڈ کی شکل میں آئے۔‘‘

Niger Niamey Angriff auf Gefängnis
نائجیریا میں سکیورٹی فورسزبھی حملوں کا نشانہ بنتی ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo

اس اہلکار نے بتایا کہ شدت پسندوں کے پاس طیارہ شکن گنز بھی تھیں۔ اے ایف پی کے مطابق یہ اس بات کا تازہ اشارہ ہے کہ بوکو حرام نے حالیہ مہینوں کے دوران اپنی اسلحے کی استعداد بڑھا لی ہے۔

بنيشيک سے فرار میں کامیاب ہونے والے مالام عیسیٰ مانو نے ریاستی دارالحکومت مائدوگوری میں صحافیوں کو بتایا کہ اسلام پسند فوج کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔ وہ یہ حربہ پہلے بھی استعمال کر چکے ہیں۔

فوج کے جنرل محمد یوسف نے ایک بریفنگ کے دوران گورنر کو بتایا کہ شدت پسندوں سے مقابلے کے دوران ان کی فورسز سے گولیاں ختم ہو گئی تھیں۔

گورنر شاتیما نے اس حملے کو ’ظالمانہ اور غیر اسلامی‘ قرار دیا اور متاثرین کے لیے مالی امداد کا وعدہ کیا۔ یہ واضح نہیں کہ بوکو حرام اس حملے کے ذریعے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی تاہم یہ شدت پسند گروہ فوج کی معاونت کے شبے پر مخصوص آبادیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ مقامی آبادی نے بتایا کہ حملہ آوروں نے بورنو کے لوگوں کو چن چن کر مارا جبکہ دیگر علاقوں کے لوگوں کو چیک پوائنٹس سے گزرنے دیا۔