1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بول‘ کہیں مفادات کی بھینٹ تو نہیں چڑھ رہا؟

رفعت سعید، کراچی23 مئی 2015

نیو یارک ٹائمز نے سترہ مئی کو پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ایکس ایکٹ کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ شائع کرکے ملکی میڈیا میں طوفان برپا کردیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ایف آئی اے اس معاملے کی مکمل چھان بین کر ہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FVVa

ایکس ایکٹ کے معاملے کو پاکستانی میڈیا میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ میڈیا ہاؤسز مالکان ماضی کے تمام اختلافات بھلا کر ایک ہوئے گئے ہیں اور میڈیا کا اتحاد اتنا واضح ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی اس معاملے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میڈیا کے اتحاد پر کھل کر اظہار خیال کیا۔

البتہ میڈیا میں اپنے ادارے کا دفاع کرتے ہوئے ایکس ایکٹ کے مالک شعیب احمد شیخ اور ان کے میڈیا گروپ بول کے دیگر عہدیدار کا موقف ہے کہ ملک کے کئی میڈیا ہاؤسز بول ٹی وی سے خائف ہیں لہٰذا سب مل کر اس کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور اس معاملے کو ہوا دینے کا مقصد دیگر میڈیا ہاؤسز مالکان کی جانب سے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔

شہر میں معاملے پر گہرے نظر رکھنے والے کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ معروف کاروباری شخصیات اور صنعتکار اس معاملے کو دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ کچھ یوں ہے کہ یہ کہانی نیو یارک ٹائمز تک بلواسطہ طریقے سے پہنچائی گئی ہے۔

یہ معاملہ شروع اس وقت ہوا جب ایکس ایکٹ کے چند ملازمین سافٹ ویئرز کی چوری میں پکڑے گئے اور ان کے پیچھے ایک ٹی وی چینل کے مالک کا نام آیا اور یہ نام ایف آئی آر میں بھی درج کیا گیا، جسے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نکلوایا گیا۔ اس موقع پر ایکس ایکٹ انتظامیہ نے اعلٰی عدلیہ سے رجوع کر لیا اور وہ نام پھر مقدمہ میں شامل کرلیا گیا۔

Screenshot Belfordhighschollonline.com Axact Betrug
تصویر: Screenshot

یہ نقطہ آغاز تھا بول کے خلاف میڈیا ہاؤسز کے اتحاد کا۔ اس کے بعد کراچی میں چار ٹی وی چینلز مالکان ایک جگہ جمع ہوئے اور ایک نکاتی ایجنڈہ پر اتفاق ہوا کہ بول کی ناکامی میں سب کی بقا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب سے بول نیٹ ورک نے ملازمین کی بھرتی شروع کی ہے دیگر چینلز مالکان ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے اور دیگر سہولیات دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر میڈیا ہاؤس کو ہر ماہ اضافی کئی کروڑ روپے کا خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

کراچی کی ایک تجارتی شخصیت کے مطابق ایک نکاتی ایجنڈہ پر منتقل چار ٹی وی چینلز میں سے دو بڑوں نے اپنے قابل اعتبار افراد کو ایکس ایکٹ میں ملازمت دلانے میں کامیابی حاصل کر لی اور ان افراد نے ایکس ایکٹ کے اندر جاری جعلسازیوں کا کھوج لگایا اور پھر چاروں چینلز کے مالکان دوسرے اجلاس کے لیے دبئی میں اکھٹا ہوئے۔ اس اجلاس میں ایک سفارتکار بھی شریک تھے، جن کے پاس ایسے کئی افراد سے متعلق اطلاعات تھیں جنہوں نے اسی بنا پر ایکس ایکٹ چھوڑا تھا۔ اس اجلاس میں اتفاق ہوا کہ اس بھانڈے کو بین الاقوامی میڈیا پر پھوڑا جائے تاکہ حکومت کو دباؤ میں لا کر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ ایکس ایکٹ کے خلاف ایکشن لے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایکس ایکٹ بڑے پیمانے پر جعلی ڈگریوں میں ملوث ہے۔ ایف آئی اے ایکس ایکٹ کے خلاف منی لانڈرنگ، سائبر کرائم اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے لیکن مقدمہ کا اندراج صرف سائبر کرائم یونٹ کی رپورٹ کے بعد ہی ممکن ہے۔ مگر ایف آئی اے کا سائبر کرائم یونٹ تکنیکی لحاظ سے اس قدر مضبوط نہیں کہ وہ بیرون ملک موجود سرورز تک رسائی حاصل کر سکے لہذا اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں یہ تو معلوم کرلیا گیا کہ جعلسازی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور اسے ثابت کرنےکے لیے ایف بی آئی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

اسی بنا پر وزیر داخلہ چودھری نثار نے تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے مقدمہ درج ہونے میں مزید 7 سے 10 دن لگنے کا عندیہ دیا ہے۔ ہفتے کے روز پاکستانی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اس سلسلے میں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کو ایک مراسلہ تحریر کیا جا رہا ہے جب کہ اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات اگلے دو روز میں مکمل ہو جائیں گی۔

بول سے وابسطہ ایک سینئر عہدیدار کی رائے میں بول کا جیو سے تنازعہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں جیو سے اہم عہدے چھوڑ کر بول کا حصہ بننے والے ہی وہ لوگ ہیں جو کاری ضرب لگانے کے لیے موقع کا انتظار کررہے تھے کیونکہ بول کے پیچھے ملک کے رئیل اسٹیٹ کنگ کے تاثر کی وجہ سے بول کو مالیاتی لحاظ سے کمزور کرنا ممکن نہیں تھا۔

ہفتے کی شام پاکستانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق یہ گروپ جوائن کرنے والے سرکردہ صحافیوں میں سے کامران خان کے علاوہ اظہر عباس، افتخار احمد اور عاصمہ شیرازی نے آج بول سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔

ایف آئی اے نے کراچی اور اسلام آباد میں ایگزیکٹ کے دفاتر کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ کمپیوٹرز تحویل میں لے لیے گئے ہیں، کاغذات ضبط ہو چکے ہیں اور متعدد ملازمین زیر حراست ہیں اور بیان قلم بند کیے جارہے ہیں۔ ایکس ایکٹ کے مالک شعیب احمد شیخ ایف آئی اے کی جانب سے دو نوٹس موصول ہونے کے باوجود تاحال بیان قلم بند کرانے کے لیے پیش نہیں ہوئے ہیں جبکہ پہلے نوٹس کے بعد شعیب نے ایف آئی اے کو تحریری طور پر الزامات کو جھوٹے اور بے بنیاد قرار دے کر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔