1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش کے خونی الیکشن: عوامی لیگ کامیاب

عابد حسین6 جنوری 2014

پانچ جنوری کے انتخابات کا اپوزیشن نے پہلے ہی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اِس باعث عوامی لیگ اور اُس کے اتحادیوں کے 153 امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار دے دیے گئے تھے۔ اتوار کی ووٹنگ کے بعد 86 حلقوں میں حکمران جماعت جیت گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Alcz
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images

اتوار کے روز ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیر کے روز سے بنگلہ دیش کا سیاسی منظر کیسا ہو سکتا ہے، اس مناسبت سے سیاسی و سماجی حلقے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق پانچ جنوری کے الیکشن سے بنگلہ دیشی معاشرے میں تقسیم کی خلیج مزید گہری ہونے کی وجہ سے افراتفری میں اضافہ اور امن و سلامتی کی صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔ اس مناسبت سے یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ سیاسی بےچینی اور بےسکونی سے بنگلہ دیش کی کمزور معیشت کو مشکلات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

Bangladesch Parlamentswahlen Gewalt in Shatkaniya
الیکشن کے دن پر تشدد واقعات میں اٹھارہ افراد مارے گئےتصویر: picture-alliance/AP Photo

اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد حکمران عوامی لیگ اور اُس کے اتحادیوں کے 153امیدوار پارلیمان کے لیے بلا مقابلہ منتخب قرار دیے جا چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ 300 اراکین پر مشتمل ہے۔ جن 147 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے، اُن میں سے 116 کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج موصول ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 86 حلقوں میں عوامی لیگ کے امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گئے ہیں۔ بقیہ حلقوں پر اتحادی یا آزاد امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ الیکشن کا حتمی نتیجہ آج پیر کے روز سامنے آ جائے گا۔

بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسان الحق کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے لیے ٹرن آؤٹ کوئی معنی نہیں رکھتا اصل میں عوام نے پرتشدد سیاست کو ناکام بنا دیا ہے۔ الیکشن کے دن 18 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل انتہائی سست رہا۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں کو جلا بھی دیا گیا تھا۔ تقریباً 436 پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ شروع ہی نہیں کی جا سکی۔ بظاہر ٹرن آؤٹ کا کوئی حتمی اعلان نہیں کیا گیا لیکن مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتخابی عمل کسی طور پر خاطرخواہ نہیں تھا۔

حالیہ الیکشن کو خونی خیال کیا گیا ہے کیونکہ اتوار کے دن ہی کم از کم ڈیڑھ درجن افراد مارے گئے۔ کئی سو پولنگ اسٹیشنوں کو حکومت مخالف جماعتوں کے مشتعل کارکنوں نے نذرآتش بھی کیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ سن 1971میں آزادی کے بعد بنگلہ دیش کے اندر معاشرتی اور سیاسی تقسیم اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے اور اِس باعث اگلے ہفتوں کے دوران خونی فسادات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

Bangladesch Wahlen 2014 Unruhen
کئی سو پولنگ اسٹیشنوں کو حکومت مخالف جماعتوں کے مشتعل کارکنوں نے نذرآتش بھی کیاتصویر: DW

کُل 21 اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ ان کی قیادت کرنے والی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے عام ہڑتال کا عرصہ بدھ تک بڑھا دیا ہے۔ اس سیاسی جماعت کے نائب لیڈر فخرالاسلام عالمگیر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات نے جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ہے اور عوام نے شرکت نہ کر کے اِس انتخابی عمل کو ناکام بنا دیا ہے۔ عالمگیر کے مطابق جو بھی نتائج ہیں وہ ناقابلِ قبول ہیں۔

بنگلہ دیش کے اخبار نیو ایج کے مطابق اگر وزیراعظم شیخ حسینہ سیاسی عمل کو انتخابات کے بعد مزید آگے بڑھاتی ہیں تو اِس کے ملک کی مجموعی صورت حال پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ نیو ایج مزید لکھتا ہے کہ سیاسی بحران جہاں مزید بڑھے گا وہیں سماجی افراتفری پھیلنے کا بھی قوی امکان ہے اور اِس باعث ملکی تشخص کو بین الاقوامی سطح پر شدید ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہے اور اِس باعث بنگلہ دیش کو اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنے کے علاوہ عالمی سطح پر اکیلا بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں