1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں مذہبی سیاسی رہنما کو عمر قید، مظاہرے شروع

5 فروری 2013

ڈھاکا کی ایک عدالت کی طرف سے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مولا کو عمر قید کی سزا سنائے جانے پر مختلف شہروں میں فسادات شروع ہوگئے ہیں۔ عبدالقادر پر1971ء کی جنگ آزادی کے دوران قتل عام کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/17YDb
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈھاکا سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا ہے کہ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی جماعت اسلامی کے اعلیٰ رہنما عبدالقادر مولا کو سزا سنائے جانے پر دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

Bangladesch Streik Gerichtsurteil Kriegsverbrechen während Unabhängigkeitskrieg
اپوزیشن نے احتجاج کی کال دی ہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images)

پولیس کے مطابق صرف ڈھاکا میں سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے دس ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ آج منگل کو ڈھاکا میں بھی سکیورٹی دستوں اور مظاہرین کے مابین تصادم کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ شمال مغربی شہر راجشاہی میں پولیس نے جماعت اسلامی کے حامی قریب پانچ سو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل برسائے اور ربر کی گولیاں فائر کیں۔

ڈھاکا کی عدالت کی طرف سے 64 سالہ مذہبی سیاسی رہنما عبدالقادر کو سزا سنائے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں دارالحکومت میں آج تمام اسکول بند کر دیے گئے جبکہ روزمرہ زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس عدالت کے مخالف جماعت اسلامی کے حامیوں نے پیر کی رات کو بھی مظاہرے کیے تھے۔ پولیس کے بقول اس دوران مبینہ طور پر جماعت اسلامی کے حامی مظاہرین کی طرف سے ایک بس کے نذر آتش کیے جانے کی وجہ سے ایک نوجوان بینکار جل کر ہلاک ہو گیا جبکہ چار دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔

’عبدالقادر کو سزائے موت دی جانا چاہیے تھی‘

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے چوتھے سب سے سینئر رہنما عبدالقادر مولا ایسے پہلے سیاستدان ہیں ، جو ڈھاکہ کی ایک مقامی عدالت ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل‘ کی طرف سے جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس ٹریبیونل پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ شفاف طریقے سے مقدمات کی سماعت کے قابل نہیں ہے جبکہ یہ صرف سیاسی بدلے لینے کے لیے  قائم کیا گیا ہے۔

جب اس عدالت کے جج عبید الحسن نے عبدالقادر مولا کو سزا سنائی، تو انہوں نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام تر الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

Bangladesch Streik Gerichtsurteil Kriegsverbrechen während Unabhängigkeitskrieg
یہ مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئےتصویر: Reuters

اٹارنی جنرل محب عالم نے بتایا ہے کہ ملزم پر عائد چھ الزامات میں سے پانچ ثابت ہو گئے ہیں، ’’جرائم کی سنگین نوعیت کو دیکھتے ہوئے انہیں سزائے موت دی جانا چاہیے تھی۔ لیکن عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔‘‘ وکیل استغاثہ محمد علی نے عبدالقادر کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ ساڑھے تین سو بنگالی شہریوں کی ہلاکت کا براہ راست ذمہ دار ہے، جن میں شاعر اور معروف صحافی بھی شامل تھے۔‘‘

اکیس جنوری کو اسی ٹریبیونل نے جماعت اسلامی کے ایک سابق رہنما کو ان کی عدم موجودگی میں ہی سزائے موت سنائی تھی۔ وہ بھی اس عدالت کی طرف سے 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔ اسی طرح اپوزیشن کے دس دیگر رہنماؤں پر بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی کی پوری قیادت کے علاوہ اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے دو اہم رہنما بھی شامل ہیں۔

بی این پی اور جماعت اسلامی دونوں ہی اس عدالت کے جائز ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں جبکہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے ادارے بھی اس ٹریبیونل کی شفافیت پر شک کرتے ہیں۔ یہ ٹریبیونل 2010ء میں ڈھاکا کی موجودہ سیکولر حکومت نے قائم کیا تھا۔

(ab / mm (AFP