1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکس میں پانچ نئے ممالک شامل، مزید توسیع کا اشارہ

3 جنوری 2024

ابھرتی ہوئی سرفہرست معیشتوں کے گروپ 'برکس' میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، ایتھوپیا اور مصر کو بھی باضابطہ شامل کرلیا گیا ہے۔ گروپ کے موجودہ صدر روس کے رہنما پوٹن نے اس میں مزید توسیع کا اشارہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4aolp
  ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ برکس کے اراکین کی مجموعی تعداد دوگنا ہوکر اب دس ہو گئی ہے
ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ برکس کے اراکین کی مجموعی تعداد دوگنا ہوکر اب دس ہو گئی ہے تصویر: GIANLUIGI GUERCIA/AFP

عالمی امور میں مغربی ملکوں کے تسلط کے خلاف اپنی اسٹریٹیجک طاقت بڑھانے کے لیے کوشاں پانچ رکنی برکس نے توسیع کرتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، ایتھوپیا اور مصر کو بھی باضابطہ طورپر شامل کرلیا ہے۔ اس طرح ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اس گروپ کے اراکین کی مجموعی تعداد دوگنا ہوکر اب دس ہو گئی۔

نئے اراکین کی باضابطہ شمولیت کا اعلان ماسکو میں منعقدہ اجلاس کے دوران کیا گیا۔ ماسکو کی جانب سے برکس کی صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ یہ گروپ اب دس ملکی تنظیم بن گیا ہے، جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، مصر اور ایتھوپیا بھی شامل ہوں گے۔

برکس میں توسیع کا اعلان، چھ نئے ممالک شامل

اگست میں جوہانس برگ میں ہونے والی برکس کی آخری سربراہی اجلاس میں گروپ کے رہنماوں نے یکم جنوری سے ارجٹنائن سمیت چھ ملکوں کو بلاک میں شامل کرنے کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ تاہم ارجنٹائن کے نئے صدر جاویر میلی نے گزشتہ ہفتے اپنے ملک کو برکس کا رکن بننے سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ 

روسی صدر نے کہا کہ برکس حمایت کرنے والوں اور ہم خیال ممالک کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے
روسی صدر نے کہا کہ برکس حمایت کرنے والوں اور ہم خیال ممالک کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہےتصویر: BRICS / Handout/picture alliance

برکس، بین الاقوامی امور میں مضبوط کردار کا اشارہ

روسی صدر ولادیمیرپوٹن نے اپنے خطاب میں کہا، "مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے برکس میں نئے مکمل اراکین کے طور پر شمولیت اختیار کی ہے، جو اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی طاقت اور بین الاقوامی امور میں اس کے کردار کا مضبوط اشارہ ہے۔"

روسی صدر پوٹن نے مزید کہا کہ تقریباً تیس مزید ممالک برکس کے کثیر جہتی ایجنڈے میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔

برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات

انہوں نے کہا،" یقیناً ہم اس پر غور کریں گے، بہت سے دوسرے ممالک، کسی نہ کسی شکل میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم برکس پارٹنر ملک کے ایک نئے زمرے کے طریقوں پر کام شروع کریں گے۔"

خیال رہے کہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ برکس کے بنیادی اراکان ہیں اور یہ گروپ عالمی معیشت کے ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں یہ عالمی اقتصادی ترقی کا ایک بڑا محرک رہا ہے۔

برکس گروپ عالمی معیشت کے ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتا ہے
برکس گروپ عالمی معیشت کے ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتا ہےتصویر: Wu Hong/AP Images/picture alliance

مزید توسیع کا امکان

برکس کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی ماسکو نے اسے مزید وسعت دینے اور مستحکم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

روسی صدر نے کہا کہ برکس حمایت کرنے والوں اور ہم خیال ممالک کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے جو اس کے بنیادی اصولوں جیسے کہ خود مختار مساوات، کھلے پن، اتفاق رائے اور کثیر قطبی بین الاقوامی ترتیب اور ایک منصفانہ عالمی مالیاتی اور تجارتی نظام کی تشکیل سے اتفاق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا "ہم اس امر کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے اور تنظیم کی گزشتہ برسوں میں حاصل کیے گئے تجربات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ہم اس کی سرگرمیوں کے تمام فارمیٹس میں نئے شرکاء کی ہم آہنگی کے ساتھ شمولیت کی سہولت فراہم کریں گے۔"

ایک نیا ورلڈ آرڈر: کیا برکس ممالک مغرب کا متبادل فراہم کر سکتے ہیں؟

صدر پوٹن نے کہا کہ "بالعموم روس تین اہم شعبوں میں برکس شراکت داری کے تمام پہلووں کو فروغ دیتا رہے گا۔ یہ ہیں: سیاست اور سلامتی، معیشت اور مالیات اور انسانی روابط۔"انہوں نے کہا، "قدرتی طورپر ہم رکن ممالک کے درمیان خارجہ پالیسی میں ہم آہنگی بڑھانے اور بین الاقوامی اور علاقائی سلامتی اور استحکام کو درپیش چیلنجز اور خطرات سے مشترکہ طورپر موثر جواب تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔"

خیال رہے کہ برکس ستمبر 2006 میں چار ملکوں برازیل، روس، بھارت اور چین پر مشمل گروپ BRIC کے طورپر قائم ہوا تھا۔ ستمبر 2010 میں جنوبی افریقہ کو مکمل رکن کے طورپر شامل کرنے کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے BRICS کردیا گیا تھا۔

ج ا/ ص ز (نیوز ایجنسیاں)