1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں کمیونٹی گارڈنز کا فروغ

ندیم گِل28 جنوری 2014

جرمن دارالحکومت برلن میں پارکوں، شاپنگ مالز کی چھتوں اور یہاں تک کے ایک سابق ایئر فیلڈ کو سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کاشت کاروں کے مطابق اس رجحان سے دارالحکومت کے شہری طرزِ زندگی نے سبز لبادہ اوڑھ لیا۔

https://p.dw.com/p/1Ay9q
تصویر: Kerstin Stelmacher

برلن میں سبزیوں کی کاشت کے لیے ان مقامات کو کمیونٹی گارڈنز کا نام دیا گیا ہے۔ اس کام کی ابتداء کرنے والے کاشت کاروں نے اسے شہر کی مصروف زندگی کے لیے ایک مثبت تبدیلی قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق ٹیپلہوف ایئرپورٹ پر بنایا گیا سٹی گارڈن غالباﹰ سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس کا رقبہ نیویارک کے سینٹرل پارک کے برابر ہے۔ یہ سابق ایئرپورٹ نازی دور کا ہے جو زمانہ سرد جنگ کے لیے دوران استعمال میں رہا۔

کمیونٹی گارڈنز میں سبزیاں کاشت کرنے والے کاشت کار یہ کام مشغلے کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ دِن بھر اس کام میں مگن رہتے ہیں اور شام کو اکٹھے ہو کر اپنی اس تحریک کا جشن مناتے ہیں۔

یہ تحریک پورے شہر میں پھیل چکی ہے۔ اس کے ضلع ویڈنگ میں ایک گروہ ایک سپر مارکیٹ کی چھت پر گاجریں اور اسٹرابریز اُگانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ شہر میں پہلے بھی مختلف عمارتوں کی چھتوں پر ایسے گارڈن بنائے جا چکے ہیں۔

Bildergalerie Gegensätzliche Landwirtschaft in der EU Urban Gardening
برلن کے کمیونٹی گارڈنز میں کیاریاں نہیں بنائی جاتیںتصویر: Getty Images

ایک کمیونٹی گارڈن ’روئیبے سال گارٹن‘ کے بانیوں میں سے ایک بُرک ہارڈ شافِٹسیل کا کہنا ہے: ’’اس منصوبے کا مقصد تو سبزیاں کاشت کرنا ہے لیکن اس کا ایک اور مقصد ایک گروپ پراجیکٹ کا حصہ بننا بھی ہے تاکہ مل جل کر کچھ کیا جائے۔ یہ ایسا کام ہے جس میں کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے۔‘‘

ایسے ہی ایک گارڈن ’آلمینڈے کونٹور‘ کی ایک رہنما گیردا میونش کہتی ہیں: ’’یہاں زندگی کے ہر شعبے سے لوگ آتے ہیں، ترک تارکینِ وطن سے لے کر طالب علموں اور ریٹائرڈ افراد تک ہر کوئی اس کا حصہ بن رہا ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ شہری حکومت ان گارڈنز کے لیے مستقل کیاریاں بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے پودے چھوٹے بڑے کنٹینرز میں اُگائے جاتے ہیں جنہیں مختص گارڈنز میں رکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کاشت کار شہر کی زمین کو استعمال نہیں کرنا چاہتے جو ممکنہ طور پر آلودہ ہے۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ کھدائی کے دوران عالمی جنگ کے زمانے کے بم بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

سبزیاں عام طور پر پلائی ووڈ کے باکسز میں اُگائی جا رہی ہیں۔ اس کے برعکس بعض لوگ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے لیے انوکھی اشیاء بھی استعمال کر رہے ہیں، مثلاﹰ پتیلیاں، پرانے جوتے یا پھر کوئی پرانی کرسی۔

شہری کاشت کاری پر ایک کتاب کی ایڈیٹر اور ماہرِ عمرانیات کرسٹا میولر کہتی ہیں: ’’گھریلو کاشت کاری کا مقصد محض خود انحصاری نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اربن پلاننگ سروسز اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ رابطہ کاری کے عمل کو سیکھنا بھی ہے۔‘‘

بڑے شہروں میں کمیونٹی گارڈنز کا ایک مقصد غربت کے خلاف لڑائی بھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شہروں میں منتقلی بھی اس رجحان کے فروغ کی ایک وجہ ہے۔