بحران جاری لیکن امید لوٹ آئی ہے
24 جنوری 2014داووس میں زیادہ تر سیاستدانوں کا ایک ہی واضح مقصد ہوا کرتا ہے اور وہ یہ کہ وہ سرمایہ کاری حاصل کرنے اور اپنے اپنے ملک کو کاروبار کے لیے ایک پُر کشش مقام کے طور پر پیش کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے نے داووس میں ایک ہی پیغام دیا اور وہ تھا، موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کا۔ جمعہ چوبیس جنوری کو داووس میں ڈوئچے ویلے کے نئے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ کے ساتھ گفتگو میں شوئبلے نے کہا کہ مستقبل قریب میں جرمنی کی مالیاتی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی:’’ہم اپنی مالیاتی پالیسیاں قرضوں کو صفر رکھتے ہوئے جاری رکھیں گے۔‘‘
شوئبلے نے مزید کہا، ’محض اسی دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہم مرحلہ وار اُن تمام وعدوں کو عملی شکل دے سکتے ہیں، جو ہم نے انتخابی مہم کے دوران کیے تھے‘۔ مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے میں نئی جرمن حکومت نے دیگر امور کے علاوہ پنشن کے شعبے میں مزید اخراجات پر بھی اتفاقِ رائے کیا تھا۔
حد سے زیادہ کامیاب؟
شوئبلے نے ان الزامات کو ر َد کر دیا کہ برآمدات کے شعبے میں جرمنی کی کامیابیاں بین الاقوامی توازن کو خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ’یورو زون میں ہمارا کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی عدم توازن نہیں ہے‘۔ اُنہوں نے کہا کہ یورپی یونین سے باہر واقع ملکوں کے ساتھ البتہ یہ صورتِ حال ضرور ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے دیگر ممالک کو بھی اس سے فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ جرمنی جو مصنوعات برآمد کرتا ہے، اُن کے کئی حصے دیگر یورپی ساتھی ممالک میں تیار کیے گئے ہوتے ہیں۔ شوئبلے نے کہا:’’ہماری کارکردگی کے بغیر یورو زون کا بحران اور بھی زیادہ شدید ہوتا اور اپنی اس برآمدی کارکردگی کے ذریعے ہم یورپی سطح پر بھی اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔‘‘
بہتری کے رجحانات
انہوں نے کہا کہ اگر ابتر معاشی حالات کا سامنا کرنے والے یورو ممالک کے حالات اب آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگے ہیں تو اس میں جرمن معیشت کے استحکام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہتری کی ایک علامت کے طور پر شوئبلے نے یونان، آئر لینڈ، پرتگال اور اسپین میں ریاستی قرضوں کے لیے سود کی کم ہوتی ہوئی شرحوں کا حوالہ دیا۔
ساتھ ہی شوئبلے نے البتہ یہ بھی کہا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یورپ کی مجموعی معاشی صورتِ حال اب اُتنی پریشان کن نہیں ہے، جتنی کہ اب سے ایک سال پہلے تک تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ بہتری کے یہ آثار داووس میں بھی نظر آ رہے ہیں اور انہیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے اجلاسوں اور جی ٹوئنٹی کی سربراہ کانفرنسوں میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
شوئبلے کے مطابق خاص طور پر یونان میں حالات بہتر ہوئے ہیں:’’دو سال پہلے یونان کا گلاس تقریباً خالی تھا، اب یہ آدھا بھر چکا ہے۔‘‘ شوئبلے نے کہا کہ وہ یونانی حکومت کی جانب سے کی گئی اصلاحات کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں:’’شکر ہے کہ مجھے جرمنی میں اس طرح کی (مشکل) اصلاحات متعارف نہیں کروانا پڑیں۔‘‘
کیمرون کی جانب سے اٹھایا گیا توانائی کا مسئلہ
اس بار شوئبلے داووس کے عالمی اقتصادی فورم میں سرکردہ ترین جرمن سیاسی شخصیت کے طور پر شریک ہیں۔ شوئبلے سے کچھ ہی پہلے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس فورم سے خطاب کیا اور مقابلہ بازی کی حامل کسی معیشت کے لیے ’سستی توانائی‘ کو بنیادی شرط قرار دیا۔ اس موقع پر کیمرون نے یورپ میں ’فریکنگ‘ نامی اُس متنازعہ طریقے کے حق میں رائے دی، جس میں معدنی گیس اور تیل نکالنے کے لیے طاقتور کیمیائی مادے زمین کے اندر پمپ کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں اس طریقے پر عملدرآمد کا نتیجہ وہاں گیس کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں برآمد ہوا ہے تاہم تحفظ ماحول کے علمبردار حلقے خبردار کر رہے ہیں کہ اس سے قدرتی ماحول کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس کے برعکس جرمن حکومت توانائی کے شعبے میں اپنی اُن مجوزہ اصلاحات پر ڈٹی ہوئی ہے، جن کے تحت سورج اور ہوا جیسے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو فروغ دیا جائے گا اور توانائی کے معدنی اور ایٹمی ذخائر پر انحصار بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔
اقتصادی تنظیموں کی طرف سے اخراجات میں اضافے کے حوالے سے ظاہر کیے گئے خدشات کے باوجود شوئبلے نے پُر امید خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ہم تمام تر مشکلات کے باوجود توانائی کے شعبے میں مجوزہ اصلاحات کو عملی شکل دینے کے راستے پر اس طرح سے گامزن ہیں کہ اس سے کاروبار کے لیے ایک موزوں مقام کے طور پر جرمنی کی ساکھ متاثر نہیں ہو گی۔‘‘
فرانس کی تعریف
مقابلہ بازی کی صلاحیت کو ہر سال کی طرح اس بار بھی داووس میں مرکزی موضوع کی حیثیت حاصل ہے۔ شوئبلے نے کہا، ’ایسے کچھ ممالک ہیں، جو آج کل مقابلہ بازی کی صلاحیت پر پورا نہیں اتر رہے‘۔ جب شوئبلے سے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے اس اعلان پر اُن کے تاثرات پوچھے گئے کہ وہ کاروباری اداروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتے ہوئے معیشت پر طاری جمود کو توڑنا چاہتے ہیں تو شوئبلے نے کہا:’’مجھے پورا یقین ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں فرانس مزید مستحکم ہو گا۔‘‘
یورپ میں سست رو معاشی بہتری کے کچھ آثار کے باوجود چند ایک مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مئی میں یورپی پارلیمان کے لیے ہونے والے انتخابات میں انتہا پسند جماعتوں کو زیادہ تائید و حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ شوئبلے نے کہا کہ سیاستدانوں کو یورپی اتحاد کے فوائد کی مناسب انداز میں وضاحت کرنا ہو گی:’’اگر ہمارے پاس یورپی کرنسی نہ ہوتی تو ہماری معیشت کی حالت کہیں زیادہ خراب ہوتی۔‘‘
یورپی یونین سے اخراج؟
برطانیہ یورپی یونین کا رکن تو ہے لیکن یورو زون میں شامل نہیں ہے اور وہاں آج کل عوامی مُوڈ یورپ کے حق میں نہیں ہے۔ وہاں کے ایک سروے کے مطابق یورپ کی جانب ناقدانہ موقف کی حامل دائیں بازو کی جماعت یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنس پارٹی (UKIP) تقریباً تیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے طاقتور ترین جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے جبکہ وزیر اعظم کیمرون کی جماعت کو بیس فیصد سے بھی کم ووٹ ملیں گے۔
اس کے باوجود کیمرون کو یقین ہے کہ اگر (یورپی یونین میں) اصلاحات متعارف کروا دی جائیں تو وہ مجوزہ ریفرنڈم سے پہلے اپنے عوام کو یورپی یونین ہی میں شامل رہنے کا قائل کر سکتے ہیں۔ داووس میں کیمرون نے کہا:’’مجھے یقین ہے کہ برطانیہ آئندہ بھی اصلاحات کے عمل سے گزرنے والی یورپی یونین میں شامل رہے گا۔‘‘
شوئبلے کا بھی یہی خیال ہے:’’(برطانیہ بھی) یورپ میں رہے گا اور ایک نہ ایک دن سوئٹزرلینڈ بھی یورپ میں زیادہ بھرپور کردار ادا کرے گا۔‘‘ شوئبلے کے مطابق یورپی اداروں میں اصلاحات مشکل لیکن ناگزیر ہیں:’’ہم یورپی اتحاد کی منزل ڈھانچے میں تبدیلیاں لائے بغیر حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد