1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشین گیمز: پاکستان ہاکی ٹیم اعزاز کا دفاع کرنے نکلی ہے

طارق سعید، لاہور15 ستمبر 2014

ایشین گیمز 2014ء میں پاکستان کا 250 رکنی دستہ پچیس کھیلوں میں قسمت آزمائی کرے گا۔ رواں ہفتے جنوبی کوریا کے شہر انچوین میں شروع ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان ہاکی ٹیم کو اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DCJU
تصویر: AP

1958ء میں ہاکی کی شمولیت کے بعد سے ایشین گیمز میں پاکستان ہاکی ٹیم کے نام کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔ ریکارڈ آٹھ بار کی چیمپئن پاکستان نے چودہ میں سے تیرہ مرتبہ وکٹری اسٹینڈ تک رسائی کا اعزاز پایا۔ موجودہ پاکستانی ٹیم کوچ شہناز شیخ کہتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ان روایات کا ادراک ہے اور وہ17ویں ایشیائی کھیلوں میں بھی فائٹ کرنے کو تیار ہیں۔

جنوبی کوریا روانگی سے قبل ڈوئچے ویلے کو انٹرویو میں شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دس ماہ سے کوئی بین الاقوامی میچ نہیں کھیلا گیا مگر اس کمی کو ساڑھے چار ماہ طویل تربیتی کیمپ لگا کر پورا کرنے کی کوشش کی گئی، ’’ہم نے پاکستان کے ہر کھلاڑی کو ٹرائل میں موقع دیا۔ گول کیپر سے ڈیپ ڈیفنس اور فاروڈ لائن تک ہر پوزیشن کے لیے اسپیشلسٹ کوچز کی خدمات حاصل کیں۔ پوری دیانتداری سے ٹیم کی تربیت کی اور یہاں تک رمضان میں بھی ٹریننگ جاری رکھی، اس لیے میں بہت پرامید ہوں۔‘‘

ایشین گیمز میں پاکستان اور بھارت روایتی حریف رہے ہیں جن کے درمیان آٹھ فائنل کھیلے جا چکے ہیں۔ اس بار بھی عمان، چین اور سری لنکا کے ساتھ گروپ بی پاکستان کا پالا بھارت سے بھی پچیس ستمبر کو پڑے گا۔ اس بارے میں شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارت اور جنوبی کوریا کو عالمی کپ اور دولت مشترکہ کھیلوں میں کھیلتے دیکھا ہے البتہ بھارت نے انہیں کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا اس لئے انہیں اس بات کی گھبراہٹ ہوگی کہ پاکستان اس بار کون سا جن نکالتا ہے۔

خواجہ جنید پاکستان کی اس ٹیم میں شامل تھے، جس نے 1990ء میں بیجنگ ایشائی گیمز میں طلائی تمغہ جیتا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستانی ٹیم بھارت اور جنوبی کوریا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ہے۔ ٹیم میں پچاسی فیصد وہی کھلاڑی ہیں جو گز شتہ ایشین گیمز بھی کھیل چکے اور ایشین چیمپئن ٹرافی میں بھی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں اس لیے پاکستانی ہاکی ٹیم میری نظر میں فیورٹ ہے۔‘‘

خواجہ کے بقول طویل عرصے تک انٹرنیشنل ہاکی سے دور رہنا پاکستانی کھلاڑیوں کی مشکل ہوسکتی ہے مگر انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ٹورنامنٹ ہاکی کی بقاء کی جنگ ہے، ’’ایشین گیمز نے ہمیشہ پاکستان ہاکی کے لیے ایک ٹونک کا کردار ادا کیا۔ آج پاکستان ہاکی کو ایشین گیمز میں طلائی تمغے کی جتنی ضرورت ہے ماضی میں کبھی نہ تھی۔ اگر کامیابی ملتی ہے تو ملک میں ہاکی کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔ لوگ پاکستان میں ہاکی میچ دیکھنا چھوڑ چکے ہیں اگر اب ہار گئے تو وہ ہاکی کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیں گے۔‘‘

ہاکی کے علاوہ اسکواش، خواتین کرکٹ، باکسنگ، ریسلنگ اور جوڈو میں بھی پاکستانی دستے سے اچھی کارکردگی کی توقع کی جارہی ہے۔ سن 2010ء کے گوانژو ایشین گیمز میں پاکستان نے ہاکی، اسکواش اور خواتین کرکٹ میں طلائی تمغوں سمیت آٹھ میڈلز جیتے تھے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے رکن خاور شاہ کہتے ہیں، ’’ہمارے ہاں میڈل کے لیے منصوبہ بندی کا تصور تو پہلے ہی نہ تھا، اب حکومت اور اولمپک ایسوسی ایشن کے جھگڑے سے، جوغیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، اس سے کھلاڑیوں کی تیاری بھی بری طرح متاثر ہوئی۔‘‘ تاہم اس ابتر صورتحال میں بھی خاور شاہ کو امید ہے کہ پاکستانی ایتھلیٹ ہاکی اسکواش اور کرکٹ کے علاوہ بیس بال اور دیگر کھیلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

پاکستان کو ایشیائی کھیلوں کی تاریخ میں اپنے میڈلز کی ڈبل سینچری مکمل کرنے کے لیے صرف چھ مزید تمغوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے گز شتہ ساٹھ برس میں منیلا سے گوانژو تک ایشین گیمز میں جو تینتالیس طلائی تمغے جیتے ان میں سب سے زیادہ چودہ ایتھلیٹس کے نام رہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کے دو طاقتور اسپورٹس آرگنائزز کی لڑائی نے آج پہلی بار پاکستانی ایتھلیٹس کو ایشین گیمز سے بھی دور کردیا ہے۔