ایران اور پاکستان کے تنازعے میں شدت
27 مارچ 2014اس کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پائے جانے والے حالیہ تنازعے میں مزید شدت آ گئی ہے اور پاکستان نے اس واقعے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ آج جمعرات کو اس واقعے کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجاً شٹر ڈاون ہڑتال بھی کی گئی اور تمام کاروباری مراکز بند ر ہے۔
ایرانی سرحدی گارڈز کی جانب سے بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان میں خودکار ہتھیاروں سے کی گئی بلا اشتعال فائرنگ دیر تک جاری رہی۔ اس فائرنگ سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا اور مقامی آبادی کے سینکڑوں افراد نے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر ایرانی حکو مت کے خلاف نعرے لگائے اور وہاں دھرنا دیا۔ دو سری طرف آج اس سانحے کے خلاف احتجاج کے طور پر صوبے کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاون ہڑتال بھی کی گئی اور تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ پاکستان نے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا ہے اور ایران سے واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان اور ایران کے اچھے تعلقات ناگزیر ہیں اور اس حوالے سے دونوں ممالک کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا:’’سرحدی دراندازی کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہو سکتی۔اس سے دو طرفہ تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے مختلف گروپ حکو مت کے خلاف کام کر ر ہے ہیں۔ اس طویل بارڈر کو کوئی ایک ملک کنٹرول نہیں کر سکتا یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘
حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ ایرانی صوبے سیستان میں اکثر ایرانی سرحدی فورسز پر حملے ہوتے ہیں اور حملہ آور اکثر اوقات سرحد ی علاقوں میں روپوش ہو جاتے ہیں، اس لیے فائرنگ کے واقعات پیش آتے ہیں، جن کی زَد میں آ کر بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔
حسن عسکری رضوی نے کہا:’’سنی شدت پسند گروپ، جو ایران میں حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، ان کی اکثریت ایرانی علاقوں میں روپوش ہے اور یہ علاقے چونکہ پاکستان سے متصل ہیں اور وہاں دونوں اطراف بلوچ آباد ہیں، اس لیے ایران یہ سمجھتا ہے کہ ان کے محافظوں پر حملے پاکستانی سرزمین سے ہو رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ ایران نے پاکستانی حکومت سے شدت پسند تنظیم جیش العدل کے خلاف اپنی سرزمین پر کارروائی اور مغوی ایرانی محافظوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا تاہم پاکستان ان شدت پسندوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے اور کالعدم جیش العدل نامی یہ تنظیم بھی کئی بار یہ واضح کر چکی ہے کہ ان کا کوئی رکن پاکستان میں روپوش نہیں ہے۔