1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا کا پھیلاؤ: ایک سال کا جائزہ

پابسٹ سبرینا/ کشور مصطفی25 دسمبر 2014

مہلک ایبولا وائرس نے ایک سال سے زائد عرصے سے مغربی افریقی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جس وقت اس موذی وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اُس وقت کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پھلاؤ کی وسعت کتنی ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1EA3y
تصویر: REUTERS/Baz Ratner

ماہرین طب انتباہ کر رہے ہیں کہ ایبولا کے بارے میں گرچہ بہت زیادہ اطلاعات سامنے نہیں آ رہی ہیں تاہم اس موذی وائرس کے سبب مزید انسانی جانوں کا ضیاع ممکن ہے۔

ایبولا کی وباء کے پھیلاؤ کا سلسلہ 2 دسمبر 2013 ء کو شروع ہوا تھا۔ گنی کے ایک گاؤں میلیانڈو میں دو سالہ بچہ ایمیل کے پیٹ میں درد شروع ہوا، اُسے بخار آگیا اور قے ہونے لگی۔ چار روز بعد وہ انتقال کر گیا۔ کچھ ہی دنوں میں اُس کی ماں، اُس کی ایک بہن، اُس کی دادی اور ایک نرس بھی اس دنیا سے رُخصت ہوگئی۔ ماہرین اور طبی سائنسدانوں کے لیے ایمیل کیس ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کا ابتدائی نقطہ تھا وہاں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ مغربی افریقہ میں ایبولا کی اب تک کی بدترین اور سنگین ترین وباء ثابت ہوا ہے۔

2014 ء مارچ کے ماہ کے اواخر تک میڈیا کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایبولا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 60 ہو چُکی تھی اور مزید 100 افراد کے اس وائرس میں مبتلا تھے۔ گنی سے پھیلنے والا یہ وائرس چند ہی ہفتوں کے اندر اندر پڑوسی ممالک سیرا لیون، لائبیریا اور نائجیریا تک پھیل چُکا تھا۔

Ebola in Sierra Leone
سیرا لیون ایبولا وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہےتصویر: Reuters/R. Ratner

"اس وباء کی وسعت اور شدت کا اندازہ لگانے اور اس کے خلاف مناسب اقدامات کرنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ پھر ہی اس امر کا اداراک ہوا کہ متاثرہ ممالک میں ایبولا کے ساتھ جنگ کرنے والے طبی عملے میں کوالیفائیڈ اراکین کا فقدان پایا جاتا ہے۔ طبی عملے کی تربیت اور ایبولا وائرس کے متاثرین کے علاج کے لیے درکار طبی سہولیات کے مراکز قائم کرنے میں بھی خاصہ وقت لگ گیا"۔ یہ کہنا ہے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مینیجنگ ڈائریکٹر فلوریان ویسٹفال کا۔ انہوں نے تاہم مغربی افریقی ممالک خاص طور سے سیرا لیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں قائم صحت عامہ کے اداروں کے اہلکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سب نے جس مستعدی سے ایبولا وائرس پر قابو پانے اور اس کے متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے کا کام سیکھا اور شروع کیا ہے وہ حیران کُن ہے۔

Symbolbild Westafrika Ebola Hunger Archiv 2012
افریقہ میں بھوک کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے سبب لاتعداد بچے لقمہ اجل بن رہے ہیںتصویر: AFP/Getty Images/I. Sanogo

فلوریان کا مزید کہنا تھا، "ہم امید کر رہے ہیں کہ متاثرہ خطوں کے عوام اور حکومتیں ایبولا کے بارے میں میڈیا میں بہت کم آنے والی خبروں کے سبب اس سنگین بحران کو نہیں بھولیں گی۔ متاثرہ ممالک کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ضرورت رہے گی ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے تاہم اس اہم مہم میں دیگر اداروں کا کردار بھی اہم ہے" ۔

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مینیجنگ ڈائریکٹر فلوریان ویسٹفال نے اس قسم کی غلط فہمی سے انتباہ کیا ہے کہ ایبولا وائرس کا بحران ختم ہو گیا ہے کیونکہ اس بارے میں ٹیلی وژن پر بہت کم دکھایا جا رہا ہے۔فلوریان نے اپنی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے کم وسائل کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ تنظیم چندے کی رقوم سے چل رہی ہے اور اس رجحان میں کمی ایبولا کے خلاف جنگ کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

l