1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا، صحت کے شعبے میں کئی برسوں کا سب سے ’سنجیدہ خطرہ‘

عاطف توقیر16 اکتوبر 2014

امریکی، برطانوی، اطالوی، فرانسیسی اور جرمن رہنماؤں نے اپنی ایک ویڈیو کانفرنس میں ایبولا کی متعدی بیماری کو عوامی صحت کے شعبے میں حالیہ کئی برسوں کا ’سب سے سنجیدہ بین الاقوامی خطرہ‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DWG4

بدھ کے روز امریکی صدر باراک اوباما، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ، اطالوی وزیر اعظم ماریو رینزی اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے 75 منٹ کی ویڈیو کانفرنس میں اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کانفرنس کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیمرون کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ امریکی اور یورپی رہنماؤں نے اس مسئلے کے تدارک کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایبولا کی متعدی بیماری بین الاقوامی صحت عامہ کے شعبے میں حالیہ برسوں کی سب سے سنجیدہ نوعیت کی ہنگامی صورت حال ہے اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس کانفرنس میں ہر رہنما نے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے اپنے اقدامات کی وضاحت کی اور پھر اس بات پر بھی بحث کی کہ اس سلسلے میں کس طرح بین الاقوامی اقدامات میں ہم آہنگی پیدا کر کے ان کے اثرات کو بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘

Guinea Ebola
مغربی افریقہ میں اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہےتصویر: Cellou Binani/AFP/Getty Images

اس کانفرنس میں ڈیوڈ کیمرون نے تجویز دی کہ جمعے کے روز میلان میں ایشیائی یورپی سربراہ کانفرنس اور اگلے ہفتے یورپی کونسل کے اجلاس کے موقع پر اس بیماری کے خلاف مشترکہ اقدامات کی بابت فیصلے کیے جائیں۔

ان رہنماؤں کے درمیان اس بات چیت میں بین الاقوامی برادری سے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات کی اپیل ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک اور ہیلتھ ورکر میں ایبولا وائرس کی تشخیص ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ لائبیریا میں ایبولا وائرس کے حملے کا شکار ہونے والا ایک شخص امریکی شہر ڈلاس میں انتقال کر گیا تھا، تاہم اس کے علاج پر مامور دو نرسوں میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔

دریں اثناء اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بڑی اور مربوط بین الاقوامی کوششیں نہ کی گئیں، تو یہ غیرمعمولی حد تک پھیل سکتا ہے۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک لائبیریا، سیرا لیون اور گنی ہیں، جہاں رواں برس اس مہلک بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو دسمبر کے پہلے ہفتے سے اس وائرس کے نئے شکار افراد کی تعداد پانچ تا دس ہزار افراد فی ہفتہ تک پہنچ سکتی ہے۔