1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت کا غیر یقینی مستقبل

عصمت جبیں9 ستمبر 2014

جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی سب سے بڑی سیاسی جماعت این پی ڈی کو، جو ماضی میں نئے نازیوں کی مقبولیت میں اضافے سے متعلق شدید خدشات کی وجہ بنی تھی، اس وقت بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D9CX
تصویر: picture alliance/dpa

چند یورپی ملکوں میں اس وقت دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لیکن جرمنی میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی NPD گزشتہ ہفتے صوبے سیکسنی میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں وہاں کی ریاستی پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہ کر سکی۔

سیکسنی ان دو جرمن صوبوں میں سے ایک تھا جہاں این پی ڈی کے منتخب عوامی نمائندے ایوان میں موجود تھے۔ اب یہ پارٹی جرمنی کے کُل سولہ وفاقی صوبوں میں سے محض ایک میں پارلیمانی نمائندگی کی حامل ہے۔

NPD Demonstration in Gelsenkirchen
سیکسنی کی نئی پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے NPD جن پبلک فنڈز سے محروم ہو جائے گی، ان کی سالانہ مالیت 2.5 ملین یورو یا 3.3ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہےتصویر: AP

جرمنی میں پارلیمانی نمائندگی کی حامل سیاسی جماعتوں کو اخراجات کے لیے سرکاری رقوم بھی ملتی ہیں۔ این پی ڈی کے سیکسنی کی نئی پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ جماعت جن پبلک فنڈز سے محروم ہو جائے گی، ان کی سالانہ مالیت 2.5 ملین یورو یا 3.3ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ جرمن سیاسی جماعت یہ سرکاری رقوم دیگر وفاقی صوبوں میں اپنی سیاسی مہم کے لیے استعمال کرتی تھی۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں چند سال پہلے تک یہ پارٹی جرمنی میں نیو نازی سوچ کے حامل افراد کے لیے مقناطیس کی حیثیت رکھتی تھی۔ تب یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ این پی ڈی دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی وفاقی جرمن ریاست کی ساکھ کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن اب سیکسنی میں انتخابی ناکامی کے بعد سرکاری فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے یہ جماعت شدید نوعیت کی مالی مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

لائپزگ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ہینڈرک ٹریگر کہتے ہیں، ’’سیکسنی کا صوبہ اس پارٹی کی طاقت کا مرکز تھا۔ جرمنی کے مشرق میں واقع اسی صوبے میں این پی ڈی نے دو ہزار چار کے الیکشن میں 9.2 فیصد ووٹ حاصل کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا۔‘‘ تب نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی اس کامیابی سے ماہرین کے ذہنوں میں ماضی کے نازی جرمنی کی یادیں تازہ ہو گئی تھیں۔

Demonstration in Dresden: Nazis raus Plakat, Landtagswahl 2004 in Sachsen
تجزیہ نگاروں کی رائے میں چند سال پہلے تک یہ پارٹی جرمنی میں نیو نازی سوچ کے حامل افراد کے لیے مقناطیس کی حیثیت رکھتی تھیتصویر: AP

دس سال قبل این پی ڈی نے سیکسنی کی صوبائی پارلیمان میں بارہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس طرح اسے اپنے نظریات پھیلانے کے لیے نہ صرف ایک عوامی پلیٹ فارم مل گیا بلکہ ساتھ ہی اس کے انتہائی دائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کو درجنوں ملازمتیں بھی مل گئی تھیں۔

لائپزگ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ہینڈرک ٹریگر کہتے ہیں، ’’سیکسنی کی پارلیمان سے اخراج این پی ڈی کے لیے ایک سیاسی طاقت کے طور پر اس کے انجام کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈریسڈن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے سیاسیات کے ماہر ویرنر پاٹسیلٹ کا کہنا ہے کہ این پی ڈی کے پاس مالی وسائل بھی موجود تھے لیکن اس کا سیکسنی کی صوبائی سیاست پر اثر بہت محدود رہا۔ یہ پارٹی وہ امیدیں پوری کرنے میں ناکام رہی جو ووٹروں نے اس سے لگائی تھیں۔ اسے مسلسل ایک کے بعد دوسرے اسکینڈل کا سامنا بھی رہا۔

جرمنی کا وہ واحد صوبہ جہاں انتہائی دائیں بازو کی اس جماعت کو ابھی تک پارلیمانی نمائندگی حاصل ہے، میکلن برگ مغربی پومیرانیا Mecklenburg-Western Pomerania ہے۔ یہ صوبہ بھی جرمنی کے مشرق ہی میں واقع ہے۔

وفاقی سطح پر جرمنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو پارلیمانی نمائندگی کے لیے کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن این پی ڈی آج تک وفاقی پارلیمان میں اس لیے نہیں پہنچ سکی کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران اسے کسی بھی وفاقی الیکشن میں 1.6 فیصد سے زائد ووٹ نہیں ملے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید