1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی ٹی وی شوز: اذیت رسانی کے عام زندگی کا حصہ بننے کی وجہ

کشور مصطفیٰ13 مئی 2014

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل آج منگل کو ایک رپورٹ منظرعام پر لائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر تشدد اور اذیت رسانی روز مرہ زندگی کا معمول بنتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BypA
تصویر: JAMES LAWLER DUGGAN/AFP/GettyImages

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے 30 برس پہلے اذیت رسانی اور تشدد پر مکمل پابندی عائد کرنے پر رضامندی کے باوجود اس میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔ اس ہیومن رائٹس گروپ نے اذیت رسانی کے خاتمے کے لیے ایک نئی مہم کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ ایمنسٹی کے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ اس ادارے نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دنیا کے 141 ممالک میں اذیت رسانی کے واقعات ریکارڈ کیے۔ ان میں 79 ایسی ریاستیں شامل ہیں جو اذیت رسانی کے خلاف اقوام متحدہ کے 1984 کے کنونشن پر دستخط کرنے والے 155 ممالک میں شامل ہیں۔

اس ضمن میں کروائے گئے ایک گلوبل سروے میں 21 ممالک کے 21 ہزار افراد کو شامل کیا گیا۔ اس کے نتائج بھی نہایت خوفناک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ سروے میں شامل افراد کے 44 فیصد نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر انہیں حراست میں لیا گیا تو اُن کے ساتھ بھی شدید نوعیت کا تشدد اور اذیت رسانی کا سلوک ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بارے میں اپنا خیال ظاہر کرنے والے ایک تہائی افراد کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں کبھی کبھی معلومات حاصل کرنے کے لیے اذیت رسانی کا طریقہ کار ضروری اور قابل قبول ہوتا ہے، کیونکہ ان معلومات کے حصول سے عوام کو تحفظ پہنچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

Waterboarding Installation Symbolbild CIA Verhörmethoden
واٹر بورڈنگتصویر: Leon Neal/AFP/Getty Images

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سیکرٹری جنرل ، بھارتی نژاد سلیل شیٹھی نے لندن میں ’ اسٹاپ ٹارچر‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی مہم کے دوران صحافیوں کو بتایا، ’’اذیت رسانی ایک روٹین بن گئی ہے، یہ اب ایک عام سی بات ہے۔‘‘ شیٹھی کا مزید کہنا تھا، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے، تب سے اذیت رسانی کے طریقہ کار کا استعمال خاص طور سے امریکا اور اُس کے دائرہ اثر میں اتنی عام سی بات بن چُکی ہے کہ اسے نیشنل سکیورٹی یا قومی سلامتی کی توقعات کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔‘‘

Abu Ghraib Gefängnis in Baghdad
بغداد میں ابو غریب جیل کا منظرتصویر: picture-alliance/AP Photo

ایک گلوبل اسکین سروے کے مطابق اذیت رسانی کے طریقہ کار کو بروئے کار لانے کی حمایت والے معاشروں کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ چین اور بھارت میں اس کی شرح 74 فیصد، یونان میں 12 اور ارجنٹائن میں 15 فیصد ہے۔

برطانیہ، جہاں تمام ملکوں کے مقابلے میں اذیت رسانی کا خوف سب سے کم پایا جاتا ہے، 29 فیصد نے اس کے استعمال کے حق میں رائے دی۔ اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی برطانیہ کی شاخ کی ڈائریکٹر کیٹ ایلن نے کہا، ’’اس کی وجہ جاسوسی پر مبنی پُر تشدد ٹی وی شوز ہیں۔‘‘ امریکی ٹی وی پروگراموں کا حوالہ دیتے ہوئے کیٹ نے مزید کہا، ’’24 and Home land ‘‘ جیسے ٹی وی پروگرام اذیت رسانی کی ستائش کرتے ہیں۔ کیٹ کا کہنا تھا، ’’اسکرین رائٹرز کی ڈرامائی پیشکش اور حقیقی زندگی میں حکومتی ایجنٹوں کی طرف سے اذیت رسانی چیمبرز میں اس طریقہ کار کے استعمال میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔‘‘

ایمنسٹی انٹر نیشنل کو 1977 ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا جس کی بنیادی وجہ اس ادارے کی اذیت رسانی کے خاتمے کی جدو جہد تھی۔ اب اس نے ایک نئی دو روزہ مہم شروع کی ہے جس کا مقصد ایمنسٹی کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک پر دوبارہ سے توجہ مرکوز کرنا ہے۔