1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا: فرگوسن کیس کے خلاف ملک گير مظاہرے جاری

عاصم سليم27 نومبر 2014

سياہ فام نوجوان کی ہلاکت کے سلسلے ميں ايک سفيد فام پوليس افسر پر فرد جرم عائد نہ کرنے کے فيصلے کے بعد احتجاجی مظاہرے امریکا بھر میں جاری ہيں۔ گزشتہ روز لندن ميں بھی ہزاروں افراد نے اِسی سلسلے ميں احتجاج کيا۔

https://p.dw.com/p/1DuJs
تصویر: Reuters/Paul Hackett

لندن ميں بدھ چھبيس نومبر کو قريب پانچ ہزار افراد نے امريکی مظاہرين کی ہمدردی ميں مظاہرہ کيا۔ اس موقع پر اِن مظاہرين نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، اُن پر لکھا تھا، ’’سياہ فام افراد کی زندگياں معنی رکھتی ہيں۔‘‘ احتجاجی مظاہرين نعرے لگا رہے تھے، ’’ہاتھ اوپر، گولی مت چلانا۔‘‘ يہ وہی نعرے اور پيغامات ہيں، جو امريکا ميں نکالے گئے مظاہروں ميں بھی لوگوں نے اپنا رکھے تھے۔

برطانوی دارالحکومت ميں يہ مظاہرے وہاں قائم امريکی سفارت خانے کے باہر کيے گئے۔ اِس موقع پر برطانيہ ميں پوليس کے ہاتھوں 2011ء ميں ہلاک ہونے والے ايک انتيس سالہ سياہ فام شخص کے اہل خانہ نے بھی مظاہرين سے خطاب بھی کيا۔ لندن ميں بھی تين برس قبل مارک ڈگن کی ہلاکت کے بعد ملک گير احتجاج شروع ہو گيا تھا۔

دريں اثناء امريکا ميں فرگوسن سے شروع ہونے والا  یہ احتجاجی سلسلہ اب ملک کے بيشتر شہروں تک پھيل چکا ہے۔ بدھ کو اگرچہ فرگوسن ميں حالات ذرا بہتر رہے تاہم رياست ميسوری کی سينٹ لوئيس کاؤنٹی ميں مظاہرہ کيا گيا، جہاں مقامی پوليس نے پيپر اسپرے کا استعمال کيا۔ لاس اينجلس شہر ميں بھی صبح کے وقت کئی مظاہرين نے ايک اہم شاہراہ پر رکاوٹيں کھڑی کر ديں۔ وہاں مظاہرين اور پوليس اہلکاروں کے مابين تصادم کے نتيجے ميں ايک پوليس اہلکار زخمی ہو گيا جبکہ کم از کم 183 افراد کو حراست ميں لے ليا گيا۔ ايک اور شہر سين ڈيئيگو ميں بھی مظاہرين نے ايک شاہراہ کو بلاک کیے رکھا جبکہ اوکلينڈ شہر ميں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور وہاں 92 افراد کو حراست ميں ليا جا چکا ہے۔

حکام کے مطابق نيشنل گارڈز کے قريب 2,200 اہلکار ميسوری ميں تعينات ہيں
حکام کے مطابق نيشنل گارڈز کے قريب 2,200 اہلکار ميسوری ميں تعينات ہيںتصویر: Reuters/L. Jackson

دوسری جانب ہلاک شدہ سياہ فام لڑکے مائيکل براؤن کے والدين نے گزشتہ روز ايک نشرياتی ادارے اين بی سی نيوز پر ايک انٹرويو بھی ديا، جس ميں اُن کا کہنا تھا کہ متعلقہ پوليس اہلکار ڈيرن ولسن نے اين بی سی کے ساتھ اپنی گفتگو ميں مائيکل براؤن کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ قبل ازيں واقعے کے بعد عوامی سطح پر اپنے پہلے انٹرويو ميں ڈيرن ولسن نے کہا تھا کہ وہ مائيکل براؤن کی ہلاکت پر معافی کے طلب گار ہيں تاہم اُن کا ضمير مطمئن ہے۔ ولسن کے بقول اُن کو اُس وقت اپنی جان کا خطرہ تھا اور وہ اُس کے علاوہ اور کچھ نہيں کر سکتے تھے، جو اُنہوں نے کيا تھا۔

واضح رہےکہ رواں سال نو اگست کے روز رياست ميسوری کے شہر فرگوسن ميں پوليس افسر ڈيرن ولسن نے نہتے مائيکل  براؤن کو گولياں مارکر ہلاک کر ديا تھا، جس کے بعد حالات کافی خراب ہوگئے تھے۔ بعد ازاں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا اور امريکا ميں نسلی امتياز کی بحث چھڑ گئی۔ پھر اسی ہفتے پير کے روز گرينڈ جيوری نے يہ فيصلہ سنايا کہ براؤن کی ہلاکت کے سلسلے ميں پوليس افسر ڈيرن ولسن نے اپنے دفاع ميں گولی چلائی تھی اور اسی وجہ سے ان پر فرد جرم عائد نہيں کی جائے گی۔ اس پيش رفت کے بعد سے فوگوسن ميں دوبارہ پر تشدد احتجاج کی لہر جاری ہے جبکہ احتجاجی مظاہرے امريکا کے کئی ديگر شہروں ميں بھی جاری ہیں۔