1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے نئے صدر اور ان کو درپیش چیلنجز

شادی خان سیف/ کابل21 ستمبر 2014

اشرف غنی احمد زئی افغانستان کے جمہوری صدر منتخب کرلیے گئے ہیں۔ حتمی اعلان مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1DGSJ
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

انتخابی نتائج اور سیاسی مفاہمت کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ 55 سالہ اشرف غنی، جو ایک بے داغ ماضی کے حامل اصلاح پسند کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ملک کے آئندہ صدر ہوں گے۔

افغان عوام کو بالآخر ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ان کے نئے صدر کے بارے میں حتمی فیصلہ سُننے کو مل ہی گیا۔ چودہ چون کو حتمی مرحلے کے لیے ڈالے گئے تمام اسی لاکھ سے زائد ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور پھر جانچ پڑتال کے بعد بھی اشرف غنی ہی سرفہرست ثابت ہوچکے ہیں۔

تاہم اس جنگ زدہ ملک کے خونریز ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقتدار کے پر امن انتقال کے لیے محض انتخابات ہی کافی ثابت نہیں ہوسکے۔ اشرف غنی کے حریف امیدوار عبد اللہ عبد اللہ پہلے انتخابات کے ابتدائی نتائج پر سیخ پا ہوئے اور پھر ایک معاہدے کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر تو تیار ہوئے لیکن اس جانچ پڑتال کے عمل پر بھی وہ شاکی رہے۔ بالآخر صدر حامد کرزئی اور سابق جہادی رہنماوں کی طویل مشاورتی کوششوں کے بعد وہ شراکت اقتدار کے معاہدے پر تیار ہوگئے ہیں، جسے گرچہ شراکت اقتدار کا معاہدہ نہیں قرار دیا جارہا۔

Kerry in Afghanistan 11.07.2014 mit Ghani
افغانستان میں سیاسی بحران کے حل پر امریکا نے غیر معمولی زور دیا تھاتصویر: Reuters

دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین یہ طے پایا ہے کہ اشرف غنی احمد زئی ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں گے جبکہ عبد اللہ عبد اللہ کے لیے چیف ایگزیکیٹیو کا عہدہ قائم کیا جائے گا، جس کے پاس خاطر خواہ اختیارات ہوں گے مگر وہ آئین کے مطابق صدر مملکت کے ماتحت کی حیثیت سے کام کرسکیں گے۔

افغانستان کے بہت سے دانشور عبد اللہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس توڑ جوڑ کے عمل سے قائم ہونے والی حکومت سے بہت زیادہ توقوعات وابستہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم کچھ کے خیال میں، عبد اللہ کے حامی جس طرح کے تخریبی بیانات جاری کر رہے تھے، اس صورتحال میں اس مسئلے کا ایک پر امن حل ملک اور عوام کے مفاد میں کسی غنیمت سے کم نہیں۔

افغانستان میں سب سے بڑے نجی خبر رساں ادارے پژواک میں مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھانے والے پاکستانی صحافی سید مدثر علی صورتحال کو کچھ یوں دیکھتے ہیں، "لوگوں میں اب تشویش بڑی حد تک کم ہوگئی ہے، اس بے یقینی نے معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے تھے مگر مجھے نہیں لگتا کہ شراکت اقتدار کے تحت دو مخالف گروپوں کی قائم کردہ یہ حکومت زیادہ عرصہ چل پائے گا"۔

Wahlen Afghanistan Abdullah Abdullah, Ashraf Ghani
عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی آخر آخر وقت تک مقابلہ کرتے رہےتصویر: picture-alliance/dpa

آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے عوام نے انتخابات کے دونوں مراحل میں توقعات کے برخلاف بڑھ چڑھ کا حصہ لیا تھا تاہم بعد میں جب یہ عمل کئی ماہ تک بے نتیجہ رہا اور ملک کے کونے کونے سے بدامنی کے بڑھنے اور بے روزگاری کے واقعات سامنے آنے لگے تو عمومی طور پراچھی امید کے بجائے خوف اور پریشانی نے لے لی تھی۔

کابل میں کشمش کا شربت فروخت کرنے والے محمد صابر کو اشرف غنی اور عبداللہ کے مابین سمجھوتے کے بعد ایک مرتبہ پھر امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ وہ کہتا ہے، " ہمیں بس امن چاہیے کہ یہ بے یقینی کی صورتحال ختم ہو اور نیا صدر ملک کی باگ ڈور سنبھال لے"۔

نئے افغان صدر کی حیثیت سے اشرف غنی کے سامنے اس جنگ زدہ اور غریب ملک کو خود انحصاری اور خوشحالی کی ڈگر پر ڈالنے کے لیے پہاڑ جیسے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔