1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کا دورہٴ پاکستان: ’تعلقات کے نئے باب کی اُمید‘

عابد حسین14 نومبر 2014

افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی احمد زئی آج جمعے کے روز پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔ ان کے اس اہم سمجھے جانے والے دورے کو دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے ’نئے آغاز‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DmSy
تصویر: Reuters/F. Mahmood

افغانستان کے صدر اشرف غنی کا یہ دورہ اِس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایسے وقت میں عمل میں آ رہا ہے، جب کُل چھ ہفتوں کے بعد افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے والا ہے اور تیرہ سالہ نیٹو کا آئی سیف جنگی مشن اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے۔ اسلام آباد میں افغان صدر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ایسا امکان بھی ہے کہ دونوں لیڈر ہفتے کے روز پاک افغان کرکٹ ٹیموں کا میچ بھی دیکھنے جائیں۔ دوسری جانب افغان کرکٹ بورڈ کے ترجمان محمد عزیز غروال نے بھی کہا ہے کہ اشرف غنی اور نواز شریف ہفتے کے روز پاکستان اور افغانستان کی اے ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کو دیکھنے جا سکتے ہیں۔

سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر عدم اعتماد کی چادر تنی رہی۔ کابل حکومت بار بار افغانستان کے امن و امن کی خراب صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتی رہی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے پر یہ الزام بھی عائد کرتی ہیں کہ مخالف عسکریت پسندوں کوسرحدوں کے آرپار پناہ دی گئی ہے۔ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ستمبر میں منصبِ صدارت سنبھالنے والے اشرف غنی اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ساتھ گفتگو میں غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے کو تجویز کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اسی ہفتے کے دوران اِس امید کا اظہار کیا تھا کہ فریقین یقینی طور پر اقتدار کی منتقلی کے بعد کی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اولسن کے مطابق کابل اور اسلام آباد نئے تعلق کی شروعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ اور کشیدگی سے عبارت صورت حال کی بازگشت امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کی ایک تازہ رپورٹ میں بھی سنائی دی اور اُس میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کی ظاہراً دکھائی نہ دینے والی فورسز افغانستان کے عدم استحکام کو مزید طوالت دینے کی کوشش میں ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی تواتر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان کی مزاحمتی سرگرمیوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔

افغان صورت حال میں ملوث ہونے کے الزام کی پاکستان کی جانب سے تردید بھی مسلسل کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان بھی اپنے قبائلی علاقے میں انتہا پسند جنگجُوؤں کی مسلح کارروائیوں کا سامنا کر رہا ہے اور آج کل قبائلی علاقے کے شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 1996 سے سن 2001 تک افغانستان پر قائم رہنے والی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ملکوں میں سے ایک پاکستان تھا۔ طالبان کی حکومت کو امریکی قیادت میں بین الاقوامی فوج نے افغانستان میں داخل ہو کر ختم کیا تھا۔