1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان شیعوں کے محافظ اب طالبان

عابد حسین22 مارچ 2015

افغانستان میں سن 1990 کی دہائی میں طالبان دورِ حکومت کے دوران ہزاروں ہزارہ شیعوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اب داعش کے مقابلے کے لیے طالبان نے ہزارہ شیعوں کی حفاظت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EvCP
تصویر: picture-alliance/dpa/Noorullah Shirzada

افغانستان میں نت نئے اتحاد کے لیے گٹھ جوڑ کا سلسلہ قدیمی زمانے سے جاری ہے اور آج بھی ایسا ہی دیکھا جا رہا ہے۔ اِسی تناظر میں اب اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں سے ہزارہ شیعوں کو محفوظ رکھنے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں نے اُن کی حفاظت کا ایک سمجھوتا کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 1990 کی دہائی میں، جب افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم تھی تو انہوں نے برسوں ہزارہ شیعہ اقلیت کے لوگوں کا قتلِ عام جاری رکھا تھا۔ طالبان اور ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے سرکردہ لیڈران کی ایک میٹنگ مشرقی افغان صوبے غزنی میں ہوئی اور اُسی میں طالبان نے شیعہ آبادی کو ’داعش‘ کے شدت پسندوں سے محفوظ رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔

ISAF Soldaten aus New Zealand in Afghanistan
چند برس قبل بامیان میں ہزارہ آبادی کی حفاظت پر مامور نیٹو فوجیتصویر: picture-alliance/Ton Koene

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اتحاد غیر معمولی نہیں بلکہ غیر فطرتی ہے اور افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے خطرے کے احساس سے پیدا بے چینی کا مظہر ہے۔ بظاہر افغانستان میں اِس وقت کسی مقام یا کسی علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے قدم جمتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی اُس کے جہادی کسی مخصوص مقام پر ڈیرے جما کر جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اتحاد کی ایک وجہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہزارہ زائرین کے دو گروپوں کا اغوا ایسے افراد نے کیا ہے، جو اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کی طرح سیاہ نقاب پہنے ہوئے تھے۔ اِن افراد کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ ہیں۔

افغان امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کا خطرہ یقینی طور پر افغانستان پر منڈھلا رہا ہے اور طالبان مخالف جہادی گروپ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شمولیت کے متمنی ہیں۔ ان کے ہمراہ طالبان کے اپنے باغی جہادی بھی شامل ہیں۔ شیعہ ہزارہ کا خیال ہے کہ اسلامک اسٹیٹ شیعوں کی سخت مخالف ہے اور اِس کے جہادی کے اگر افغانستان میں قدم جمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فرقہ واریت کی نئی لہر پہلے سے جنگ زدہ ملک پر نئی مصیبت کے طور پر نازل ہو جائے گی۔ افغان صوبے غزنی کے نائب گورنر محمد علی احمدی کا کہنا ہے کہ داعش موجود ہے یا نہیں لیکن اِس کا نفسیاتی اثر غزنی میں خطرناک حد محسوس کیا جا رہا ہے۔

Afghanen der Ethnie der Hazara in Afghanistan
ہزارہ شییعہ اقلیت کے اوگ محفوظ علاقے کی جانب جاتے ہوئےتصویر: TOMAS MUNITA/AP/dapd

گزشتہ موسمِ گرما سے افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے خود ساختہ حامیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ طالبان کے پیدائش والے علاقے قندھار میں مبینہ اسلامک اسٹیٹ کے حامیوں اور طالبان کے درمیان مسلح جھڑپوں کو بھی رپورٹ کیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ چند افغان طالبان کمانڈروں نے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی کے علاوہ اِس کے مرکزی لیڈر کی بیعت کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق طالبان کمانڈر اب اپنی نئی تنظیم کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان اجمل عابدی کا بھی کہنا ہے کہ داعش یہاں موجود ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے بھی کابل سے رپورٹ کیا ہے کہ اِس وقت چھ مختلف صوبوں میں اسلامک اسٹیٹ کے حامی فائٹرز اپنی مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ فی الوقت کوئی بڑا عسکری خطرہ نہیں لیکن مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اسی خطرے کے احساس میں غزنی کے ہزارہ کمیونٹی کے نمایاں افراد نے مقامی طالبان لیڈروں سے ملاقات کر کے اپنی کمیونٹی کی حفاظت کا سمجھوتا کیا۔ غزنی صوبے کی صوبائی کونسل کی ہزارہ شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن حسن رضا یوسفی نے کہا ہے کہ طالبان نے اُن کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہی کی ہے۔