1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان انتخابات کی کامیابی، طالبان کی طاقت پر سوالیہ نشان

افسر اعوان7 اپریل 2014

افغانستان میں ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح توقعات سے بہت زیادہ رہی۔ طالبان کی دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی افغانستان میں جمہوریت کی کامیابی کی ایک روشن دلیل ہے۔

https://p.dw.com/p/1BdD1
تصویر: Reuters

افغان صدارتی انتخابات سے قبل طالبان کی طرف سے نہ صرف اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں بلکہ ووٹرز کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ تاہم ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی طالبان کی طاقت اور غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی اُس صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے جس کے بارے میں ماہرین خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے انتخابات کے دوران ایک ہزار حملے کیے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم افغان سکیورٹی حکام نے ان دعووں کو بہت زیادہ مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔

ووٹنگ کی گنتی کا عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے
ووٹنگ کی گنتی کا عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہےتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ووٹنگ کے دن سڑک کنارے نصب درجنوں چھوٹے چھوٹے بموں کے دھماکے ہوئے جبکہ پولنگ اسٹیشنوں پر بھی حملے کیے گئے۔ تاہم مجموعی طور پر تشدد کا درجہ اس سے کہیں زیادہ کم رہا جس کے بارے میں طالبان دھمکیاں دیتے رہے تھے۔

تمام تر دھمکیوں اور خطرات کے باوجود ہفتہ پانچ اپریل کو ہونی والی ووٹنگ کے موقع پر قریب 12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا۔ یہ دراصل افغان قوم کی جانب سے اپنے ملک میں جمہوری طور پر اقتدار کی منتقلی کے اولین موقع پر ووٹ دے کر اس عمل میں شمولیت کی خواہش کا اظہار تھا۔

ایک افغان شہری کی جانب سے بھیجے گئے ایک ٹوئٹر پیغام کے مطابق، ’’لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ طالبان مردہ باد۔‘‘ اس پیغام میں اس شہری نے اپنے ایک دوست کی تصویر بھی شامل کی ہے جس میں وہ اپنی نیلی روشنائی کے نشان والی انگلی دکھا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے۔

افغان پارلیمان کی ایک رکن شکریہ بارکزئی کے مطابق، ’’یہ ایک طرح سے خواب پورا ہو جانے جیسا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’یہ افغانستان کے دشمنوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور ان لوگوں کے منہ پر ایک بھرپور مُکا جو یہ مانتے ہیں کہ افغانستان ابھی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا
12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچاتصویر: DW/Q.Wafa

روئٹرز کے مطابق طالبان ووٹنگ کے دن تو بڑے حملوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تاہم بعض لوگوں کے خدشات ہیں کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گنتی کا یہ عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔

پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہونے والے ایسے پہلے حملے میں دو الیکشن ورکرز اور ایک پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب انہیں سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بنایا گیا۔ اتوار کے روز ہونے والے اس حملے میں بیلٹ پیپرز بھی ضائع ہوئے۔

افغان اینالسٹس نیٹ ورک نامی ایک ادارے کے تجزیہ کار برہان عثمان کے خیال میں اب کے بعد افغانستان میں عسکریت پسندی کے جیتنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، بھلے طالبان اس بات کا جتنا بھی دعویٰ کریں کہ انہوں نے امریکا جیسی طاقت کو شکست دے دی ہے اور یہ کہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔

دوسری طرف روئٹرز کے مطابق بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے میں ناکامی کے باوجود ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ طالبان پسپا ہو گئے ہیں۔